محمود شام
کئی دن سے پیر حسام الدین راشدی بہت یاد آرہے ہیں سراپا شفقت۔ اہل حرف سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے ۔زیادہ ملاقاتیں الفینسٹن سٹریٹ ایلفی پر حمید کاشمیری صاحب کی کتابوں کی دکان پر ہوتی تھیں۔ حمیدکاشمیری اپنی جگہ ایک عظیم مصنف ڈرامہ نویس انسانی اقدار کے علمبردار۔ دونوں ہر زبان کے لکھنے والوں سے محبت کرنیوالے۔ ایلفی شہر کا حسن تھی وہاں کتابیں ہی نہیں کتابی چہرے بھی دیکھے جا سکتے تھے ۔پیر حسام الدین راشدی اردو اور سندھی کی متعدد اہم کتابوں کے مصنف۔ زیادہ تر کتابیں انجمن ترقی اردو نے شائع کیں۔انکے بھائی پیر علی محمد راشدی پاکستان کی سیاست میں اعلی ٰمراتب تک پہنچے ۔وہ بھی اردو کے منتخب روزگار اہل قلم میں سے تھے۔ ’’جنگ‘‘میں انکا مضمون’’ مشرق و مغرب‘‘ مشرقی مغربی پاکستان اور جہاں جہاں اردو بولی پڑھی جاتی تھی وہاں قبول خاص و عام رکھتا تھا۔ پاکستان کوارٹرز میں ان سے نیاز حاصل رہتے تھے مضمون کے حصول کیلئے۔ ان کی لکھائی بہت صاف ستھری ،بڑے سائز کے رولدار کاغذ پر لکھتے تھے۔ پیر حسام الدین راشدی کی طرح انکا کتب خانہ بھی انتہائی اہم اورنایاب کتابوں سے مرصع۔ کتنی صحبتیں ہوتی تھیں۔ اختلافات ادبی سیاسی عمرانی لیکن کبھی انسانوں سے نفرت کا اظہار نہیں۔ ان دنوں بلکہ قیام پاکستان سے پہلے سے ان تمام علمی و ادبی خاندانوں کا تعلیمی مرکز علی گڑھ اور دہلی تھا ۔ابھی میں نے اپنی 500کتابیں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی لائبریری کو عطیہ کیں تو ان میں انگریزی کے ناول بھی تھے ایک ناول’’ اینا کرنینا‘‘ پر جناب طفیل علی عبدالرحمن کے دستخط بھی تھے، ساتھ علی گڑھ 1940 لکھا ہوا تھا۔میں جب 1974 میں ’’جنگ‘‘ کی طرف سے بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کا انٹرویو کرنے جا رہا تھا تو اس وقت کے گورنر سندھ میر رسول بخش تالپور نے اپنے ایک عزیز کی قبر کے حوالے سے کہا وقت ملے تو فلاں قبرستان میں ہماری طرف سے فاتحہ پڑھ لیجئے گا ۔برصغیر کے علمی مراکز سے سندھ کے اعلیٰ خاندانوں کاقیام پاکستان سے پہلے یہ تعلق خاطر بہت گہرا تھا ۔جب قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو سندھ کے ممتاز سیاسی ادبی خاندان بجا طور پر یہ فخر کرتے تھے کہ وہ........
© Daily Jang
