فرنود عالم
ہم سوات سے پیدل چلے اور ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں سے ہوتے ہوئے گلگت کی آخری ویلی میں اترے۔یہ اگست کی 14 تاریخ تھی۔ہم نے گاڑی پکڑی اور اسلام آباد کیلئےروانہ ہوگئے۔ گلگت شہر پہنچے تو مرکزی شاہراہ سے گزرنے کی بجائے ڈرائیور بھرے بازار میں نکل گیا۔وہ جگہ جگہ رکتا، دکان والے سے کچھ کہتا، کچھ سنتا اور آگے بڑھ جاتا۔اس کا یوں بار بار رکنا اترنا اب کوفت کا باعث بن رہا تھا۔میں نے کہا، سب خیریت ہے؟ کہنے لگا،جھنڈا ڈھونڈ رہا ہوں گاڑی پر لگانا ہے۔میں نے کہا، یار جھنڈے کیلئے اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو؟
ہماری 14 اگست بغیر جھنڈے کے بھی تو ہو سکتی ہے۔فورا بولا، بھائی جان مسئلہ چودہ اگست کا نہیں ہے،مسئلہ کاغذات کا ہے۔ میرے پاس گاڑی کے کاغذات نہیں ہیں۔جھنڈا لگا ہو تو پولیس والے تنگ نہیں کرتے۔ساتھ ہی دکان والوں پر گالم گفتار کرتے ہوئے کہنے لگا، ایک تو ان لوگوں میںذرا بھی پاکستانیت نہیں رہی۔اتنے بڑے بازار میں کسی کے پاس جھنڈا نہیں ہے۔پھر کہتے ہیں ملک ترقی نہیں کر رہا۔ ملک کیا خاک ترقی کرے گا؟
دیکھا جائے تو ہماری فکر اور سیاست کی گاڑی اسی فارمولے پر قومی شاہراہوں پر چل رہی ہے۔جس گاڑی کے کاغذات پورے ہوں اسے چیک پوسٹوں پر تنگ کیا جاتا ہے، جس پر صرف جھنڈا لگاہو اس کیلئے دور سے دیکھ کر پھاٹک اٹھا دیا جاتا ہے۔ ہمای مستند تاریخ میں 14اگست سے پہلے 11 اگست آتی ہے۔اس دن دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے اشارہ دیا کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا۔انہوں نے پُرامن بقائے باہمی کی بات کی جس میں اکثریت اور اقلیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ہندو قانون دان جوگندر ناتھ منڈل کو پہلا وزیر قانون بنا کر انہوں نے اپنے اشارے کو واضح بھی کردیا تھا۔قائد کو امید تھی کہ جوگندر ناتھ منڈل کی رہنمائی میں ہم دستوری کاغذات بنالیں گے۔اسی امید کے ساتھ جواہر لال نہرو نے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کو وزارت قانون کا منصب سونپا تھا۔مگر جس عرصے میں بابا صاحب امبیڈکر وہاں دستوری کاغذات تشکیل دے رہے تھے اسی عرصے........
© Daily Jang
