menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

نعیم مسعود

25 1
04.08.2025

ایک طرف پاکستان آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی تعریف و توصیف سمیٹ رہا ہے اور دوسری جانب امریکہ میں وزیرِ خارجہ و وزیرِ خزانہ امید کے نئے در وا کر رہے ہیں۔ یہی نہیں نام نہاد سیندور آپریشن کے بعد بھارت کے نہ سیاسی زخم بھر رہے اور نہ خارجی، نہ اپنی اپوزیشن کو مطمئن کر پا رہا ہے اور نہ بھارت اعتماد کی ڈگر پر آرہا ہے تاہم سنگین اضطراب کی پاداش میں آپریشن مہا دیو کے نام سےکسی نئی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا یا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے مطلب یہ کہ دشمن بگاڑ میں غوطہ زن ہے اور بوکھلاہٹ کا شکار۔ گویا پاکستان کا دشمن دلدلوں میں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ عندیہ پاکستان کیلئے اور بھی باعثِ مسرت ہے کہ وہ پاکستان سے مل کر تیل کے ذخائر کو ترقی دینے کا خواہاں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ اہم ایام ہیں کہ اگر پاکستان میں موجود خارجی تھنک ٹینک حکومت کیلئے جاندار مشیر ثابت ہوں اور اقتصادی ماہرین امیدوں میں اپنے جلووں کو شامل کر دیں تو "حقیقی اقتصادی" ترقی کا دامن وسیع ہو سکتا ہے ، اور شاید خطِ افلاس سے نیچے بسنے والوں کو بھی معلوم ہو سکے کہ زندگی میں چار چاند لگنے کا نظارہ کیا ہوتا ہے !پاکستان کو جو دکھ وراثت میں ملے ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ سماجی، معاشی، سیاسی اور جغرافیائی دکھ ختم ہونے کا نام لینے کے بجائے قوم کے سنگ سنگ پل رہے ہیں : کشمیر کا دکھ سب سے بڑا ہے، کسی کو انصاف ملنا محال ہے، کسی کو ذات پات کا اژدھا نگل رہا ہے، کوئی دوا دارو کی جستجو میں بےبسی کا مسافر رہا ، بیوروکریسی کو آزاد ملک کے سانچے میں ڈھالنے سے ہم قاصر رہے، ٹیکس کا کلچر پروان نہ چڑھ سکا، صنعتیں دم توڑتی گئیں، تعلیم سے کوالٹی کا مسلسل کوچ رہا، دوستی کے بارڈر بھی گاہے گاہے انڈین بارڈرز کی طرح ناک میں دم کرتے رہے مگر پاکستان ہمیشہ انکے زخموں کا مرہم ہی بنا، یوں ان وراثتی امراض کا علاج نہ ہو سکنا ہماری وراثتی کامرانیوں اور بل بوتے پر کمائی کامیابیوں کو سب موسموں اور ادوار میں نگلتا رہا ۔ یہ سب ہماری........

© Daily Jang