menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

ایوب ملک

33 1
15.07.2025

امریکی صدر ٹرمپ نے 4جولائی کو سینٹ اور کانگریس سے ایک ایسا بل منظور کروایا ہے جسکے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس بل کی وجہ سے امریکہ ،چین سے ٹیکنالوجی کی جنگ میں پیچھے رہ جائے گا۔اس بل کو منظور کرتے ہوئے کانگریس نے نہ تو اسکی سماعت کی اورنہ ہی توانائی کے ماہرین کی اس بارے میںرائے لی گئی۔اس بل میں اور چیزوںکے علاوہ صدر ٹرمپ نے فوسل فیول انڈسٹری کو واپس لانے اور متبادل ذرائع توانائی پر پابندی لگانے کا قانون پاس کر وا لیا ہے۔یاد رہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرنے والا ملک ہے ،جو اب تک 400بلین ٹن CO2خارج کر چکا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ بل اس وقت منظور کیا جا رہا تھا جب ٹیکساس میں 4گھنٹے میں اتنی زیادہ بارشیں ہوئیں جو پہلے چھ مہینوں کے عرصے میں ہوا کرتی تھیں جس سے سو سے زائد انسانی جانیں ضائع ہوئیںلیکن اسکے باوجود صدر ٹرمپ مسلسل ماحولیات دوست پالیسیوں کو ختم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے فورا ًبعد بھی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر تیل اور گیس کی تلاش کے منصوبوں پر عمل در آمد کریں گے جسکی وجہ سے امریکہ میں تیل اور گیس کی قیمتیں بہت کم ہو جائیں گی۔

صدر ٹرمپ بار بار توانائی کے قابل تجدید ذرائع کو ’’لبرل‘‘قرار دے رہے ہیں حالانکہ دنیا بھر میں یہ ذرائع مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کی بڑھتی ہوئی بجلی کی مانگ کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب جو دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے ، وہ بھی مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کیلئے قابل تجدید ذرائع توانائی پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے صدر ٹرمپ نے تیل اور گیس کی پیداوار سے خارج ہونے والی اضافی میتھین ،جو عالمی حدت کا ایک بہت بڑا سبب ہے، پر بھی ماحولیاتی ٹیکس کو دس سال کیلئے موخر کر دیا ہے۔آج کسی بھی ملک کی سائنسی اور اقتصادی ترقی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ وہ کتنی وافراور سستی بجلی پیدا کرکے مصنوعی ذہانت کو فروغ دے سکتا ہے کیونکہ اے آئی ہمیں........

© Daily Jang