امر جلیل
عام طور پر ہم سب ایک روز بوڑھے ناتواں ہو جاتے ہیں۔ بوڑھے ناتواں ہو جانے کے بعد ہم سب عام طور پر بیمار پڑ جاتے ہیں۔ بیمار پڑ جانے کے بعد ہم سب عام طور پر مر کھپ جاتے ہیں۔ عام طور پر یہی ہم سب کا اختتام ہوتا ہے۔ تمت بالخیر… The end۔ ختم شد۔
اس قصہ، کہانی اور بیان میں عام طور پر تھوڑا بہت ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ عام طور پر ایک جیسے انجام والی کہانیوں کی کتھا ہو بہو ایک جیسی نہیں ہوتی۔ عام طور پر کہانیوں کے بیانیہ میں مختلف نوعیت کے اتار چڑھائو، مطلب اور منشا، شکل، صورت اور ہیئت بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ عام طور پر ہم سب اپنے اپنے نصیب کی گردش ایام میں گھرے ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم سب عام طور پر عام طور کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں۔
عام طور پرعبدالقدوس کاگا جب بھی بیمار پڑتا تھا اچھے پڑوسی اسے اسپتال میں ڈاکٹروں کے حوالے کر آتے تھے۔ اسپتال میں داخل ہونے کے تھوڑی دیر بعد طرح طرح کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر عبدالقدوس کاگا کو گھیر لیتے تھے۔ دل دماغ سے لے کر عبدالقدوس کاگا کے جگر، پھیپھڑوں اور گردوں کی پڑتال کرتے تھے۔ دوچار مہلک بیماریاں عبدالقدوس کاگا سے وابستہ کر دیتے تھے۔ عبدالقدوس کاگا وارڈ بوائز، نرسوں اور ڈاکٹروں کو فخر سے بتا دیتا تھا کہ اسپتال اور ڈاکٹروں کی بھاری بھر کم فیس کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور ناروے میں مقیم اسکے چار بیٹے آپس میں شیئر کرتے ہیں۔ عبدالقدوس کاگا کی بھیانک تنہائی کو چھوڑ کر چار بیٹے اسکے باقی ماندہ دکھ درد دور کر دیتے تھے۔ کیا کریں کہ تنہائی کا مرض پیسے سے دور نہیں ہوتا۔ عبدالقدوس کاگا کے مقابلے میں ولی محمد انڈر سیکرٹری ریٹائرڈ مزے میں تھا اور آخر کار چار بیٹوں کے کندھے پر آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا گیا تھا۔ ولی محمد انڈر سیکرٹری ریٹائرڈ کے چار بیٹے اپنے والد کے ساتھ رہتے تھے اور باپ کے نام اور کام کی........
© Daily Jang
