ایسی بے رنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دنیا
اور کچھ دن تک چیت کی رت ختم ہو جائے گی اور ویساکھ کا موسم شروع ہو جائے گا چیت پھولوں کے کھلنے کا موسم ہے اور عام طور پر بہت معتدل ہوا کرتا ہے پھر بارش کے امکانات بھی بہت ہوتے ہیں‘ بقول سجاد بابر ”بوچھاڑ درختوں میں بہت شور مچائے دھندلا نظر آئے“لیکن اب کے پشاور سمیت کچھ شہروں میں موسم جلد گرم ہوگیا۔ عید الفطر اگر چہ عین چیت کے درمیان آئی لیکن موسم کی گرم مزاجی کم نہ ہوئی‘اب جب کہ کھیتوں میں دور دور تک پھولی ہوئی سرسوں اپنے جوبن پر آ چکی ہے اور درختوں پر بھی نئے برگ و بار کی بہار دیکھنے والی آنکھوں کے لئے’جنت نگاہ‘بن چکی ہے اب کچھ کچھ امید بندھ چلی ہے کہ کہیں سے بادل آئیں گے اور بہار کے آخری ہفتے میں ویساکھ کے آنے سے پہلے پہلے جل تھل ایک کر دیں گے شنید ہے کہ وہ ابر بہاری یا ابر نیساں کی بوندیں ہی ہوتی ہیں جو سمندر کی تہ میں پڑی سیپ کے منہ میں پہنچ کر گہر بن جاتی ہیں،بوستان سعدی کا ایک قطعہ بھی اس کے حوالے سے کہیں بچپن میں والد گرامی سے سنا تھا۔
یکی قطرہ ئباراں ز ابرے چکید
خجل شد چو پہنائے درریا بدید
جس کا مفہوم ہے کہ جب ابر(نیساں) سے بارش کی بوندگری تو سمندر کی وسعت دیکھ کر اسے خجالت محسوس ہوئی کہ اس کے مقابلے میں بھلا میری کیا حیثیت ہے‘سچ تو یہ ہے اگر یہ ہے تو میں
نہیں ہوں‘شیخ سعدی فرماتے ہیں جب اس بوند نے خود کو حقیر جانا تو سمند ر میں موجود سیپ نے اسے سینے میں چھپا لیا(اوراسے تابدار موتی بنا دیا) تو بہار کی بارشوں سے ہی موسم میں اعتدال آ تا ہے‘ اس کے بر عکس امریکا کی ریاست کولوراڈو کے شہر ڈینورمیں چیت کے اثرات کا تو خیر دور دور تک سر دست کوئی امکان نہیں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہاں جاڑے کادل لگا ہواہے‘گزشتہ ہفتہ مسلسل برفباری،بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے سردی کا راج رہا، چاند رات کوافراز نے افطار کا انتظام شہر........
© Daily AAJ
