مصلے گیلے کیوں نہیں ہوتے ...
ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں کردار کی قیمت ختم ہو چکی ہے اور دکھاوے کا سکّہ چلتا ہے جہاں دینداری کا معیار سجدوں کی تعداد نہیں بلکہ تصویروں کی وائرل ہونے کی رفتار ہے لوگ دین نہیں، دین داری کا تاثر بیچ رہے ہیں نیکی کی روح مٹ چکی ہے، بس اس کی مارکیٹنگ باقی ہے۔ ہم نے مسجد کے دروازے پر ‘‘نیکی’’ کو بھی بینر بنا دیا ہے، جیسے کسی کاروبار کی تشہیر ہو۔ آج کے مسلمان کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ خود کو ٹھیک سمجھتا ہے۔ غلطی، گناہ، کمزوری، سب کسی اور کی۔ہماری گفتگو میں ‘‘میں’’ نہیں، ہمیشہ ‘‘وہ’’ قصوروار ہوتا ہے۔لیکن قرآن کہتا ہے: ‘‘تمہارے اوپر جو مصیبت آتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔’’ ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری اخلاقیات سب اسی خود فریبی کے خمیر سے بنی ہیں ہم وہ قوم ہیں جو حرام کما کر مسجد بناتی ہے، جھوٹ بول کر تبلیغ کرتی ہے، اور بددیانتی کر کے زکوٰۃ دیتی ہے۔
ہم دین کے نام پر بھی تجارت کرتے ہیں، اور تجارت کے نام پر بھی دین بیچ دیتے ہیں اس دوغلے پن نے ہماری عبادتوں کو بے اثر کر دیا ہے اب مصلے گیلے نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے دل خشک ہیں نہ خوفِ خدا ہے، نہ احساسِ مخلوق۔ غیبت آج ہماری نشستوں کا مرکزی موضوع ہے۔ کسی کی برائی کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ ہم دوسروں کی پردہ دری کو علم کا نام دیتے ہیں اور گناہوں کی تشہیر کو اصلاح کا۔ نبی ؐ نے فرمایا: ‘‘جس نے اپنے بھائی کی پردہ پوشی کی، اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔’’لیکن ہم الٹا کرتے ہیں دوسروں کے گناہ تلاش کرتے ہیں تاکہ اپنے ضمیر کو اطمینان دیا جا سکے یہی وہ ریا ہے جس نے ہماری عبادتوں کو کھوکھلا کر دیا۔ ہمیں خدا سے نہیں، خدا بننے کی خواہش ہے۔ ہم دوسروں کے اعمال پر فیصلہ سناتے ہیں، جیسے عدالت ہمارے سپرد کر دی گئی ہو۔ احمد جاوید نے کہا تھا: ‘‘ جب تم اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگو تو سمجھ لو کہ تمہارا ایمان تم سے رخصت ہو چکا ہے۔’’ اور یہ ایمان کی رخصتی ہی ہے جس نے ہماری نسل کو روحانی........





















Toi Staff
Gideon Levy
Tarik Cyril Amar
Stefano Lusa
Mort Laitner
Robert Sarner
Mark Travers Ph.d
Andrew Silow-Carroll
Constantin Von Hoffmeister
Ellen Ginsberg Simon