نہری منصوبہ صرف ماحولیاتی اور حقوق کا مسئلہ نہیں
دریائے سندھ پر کارپوریٹ فارمنگ کے لیے نئی نہروں کی تعمیر کے وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف سندھ نے آواز بلند کی ہے۔
سڑکوں پر ہونے والے احتجاج اب تقریباً ایک عوامی بغاوت میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس متنازع منصوبے نے صوبے کی سیاسی قوتوں اور سول سوسائٹی کو متحد کر دیا ہے۔ شاہراہوں کی بندشوں نے نقل و حمل کے نظام کو متاثر کیا ہے۔ صورتحال اب صوبائی انتظامیہ کے قابو سے باہر محسوس ہوتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے دباؤ کے تحت اس مسئلے پر سخت موقف اختیار کر لیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر نہری منصوبے کو ختم نہ کیا گیا تو وہ مرکز میں اتحادی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے سکتی ہے۔ سندھ اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں اس منصوبے کو مسترد کیا گیا ہے، جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ صوبے کے ماحولیاتی نظام کو تباہ کر دے گا۔ مرکز کے اس یک طرفہ فیصلے نے جو کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے کیا گیا، سندھ کو وفاقی حکومت کے خلاف لا کھڑا کیا ہے۔
تاہم اقتدار کے ایوانوں میں اس صورت حال کی سنگینی کا کوئی خاص ادراک نظر نہیں آتا۔ وفاقی حکومت نے بامشکل کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ اگر یہ مسئلہ جلد آئینی دائرے میں حل نہ ہوا، تو یہ وفاق کی وحدت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
صورتحال کو مزید پیچیدہ بنانے والا پہلو سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے جو گرین پاکستان انیشی ایٹو (جی پی آئی) کی اصل پشت پناہ ہے اور انہی نہروں کو اس منصوبے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ معاملہ سویلین حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ نہری منصوبے کو........
© Dawn News TV
