پاک بھارت کشیدگی کا نیا تباہ کن پہلو
ایک جانب جہاں پاکستان اور بھارت فوجی کشیدگی کے تازہ مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، وہیں دوسری جانب کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس بار حالات ماضی کی نسبت زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں نوم چومسکی کے 12 سال قبل کہے گئے الفاظ ذہن کے پردے پر اُبھرتے ہیں۔
2013ء میں اپنی کتاب ’نوکلیئر وار اینڈ انوائرمینٹل کیٹسٹروف‘ میں نوم چومسکی نے متنبہ کیا تھا کہ ’ہماری نسلوں کو بقا کے لیے دو اہم مسائل لاحق ہیں، ایک جوہری تنازع جبکہ دوسرا ماحولیاتی تباہی‘۔
اس جملے میں شامل جوہری تنازع اور اس کے سنگین خطرے سے تو سب ہی واقف ہیں لیکن بڑے پیمانے پر یہ شعور نہیں کہ ماحولیاتی تباہی کا پہلو کس قدر تشویش ناک ہے۔ یہ بالخصوص جنوبی ایشیا کے لیے اہم ترین مسئلہ ہے جہاں بڑھتی ہوئی شہرکاری کے مسائل کا سامنا خطے کے دریا کررہے ہیں، بڑے بڑے ڈیمز پانی کے بہاؤ کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں جبکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پہاڑوں پر جمی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی مشترکہ طور پر سیلاب اور خشک سالی کے چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر بھی تنازع کھڑا ہوگا تو یہ ایک مہلک بحران کی صورت اختیار کرلے گا۔
اس کے علاوہ کشمیر جس کے دعوے دار دو نہیں بلکہ تین ممالک ہیں، گزرتے وقت کے ساتھ تباہ کُن سیلابوں کا مرکز بن چکا ہے اور اب سیلابوں کا وہ موسم بھی دور نہیں ہے۔ سانحہ پہلگام انتہائی لرزہ خیز تھا لیکن اسے جواز بنا کر طبلِ جنگ نہیں بجایا جاسکتا اور نہ ہی پانی کی تقسیم کو ہتھیار بنا کر یا نفرت پھیلا کر مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب دنیا اسرائیل اور ایران کے درمیان ممکنہ طور پر تباہ کُن تنازع کی بھی شاہد ہے جس میں دونوں ہی فریق دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جنگ اور متوقع ناقابلِ بیان نقصانات اٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن ایران کی سب سے بڑی کمزوری بھی شاید امریکا اور اسرائیل کے اتحاد کا طاقتور ہتھیار ثابت نہ ہو۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس اتنی........
© Dawn News TV
