menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

  پی۔ٹی۔آئی  اور ’معمولِ نو‘  (NEW NORMAL)

9 0
28.05.2025

اپریل 2022ء میں، تحریکِ عدم اعتماد، کے ذریعے محرومِ اقتدار ہونے کے بعد تحریکِ انصاف کے سامنے ایک راستہ تو وہی تھا جو جمہوری فکر کی حامل، سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والی بالغ فکر جماعتیں اختیار کیا کرتی ہیں۔ وہ سیدھے سبھاؤ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتی۔ صرف دو ووٹوں کی برتری سے قائم، معجونِ مرکب جیسی مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کئے رکھتی اور سائفر جیسے ناٹک رچانے اور فوج کو نشانے پر رکھ لینے کے بجائے تحمل اور استقامت کے ساتھ انتخابات کی طرف پیش قدمی کرتی۔

گذشتہ تین برس میں، اس کے سفر کو ایسا سفرِ رائیگاں قرار دیا جاسکتا ہے اور وہ قومی سیاست کی ایسی داستانِ عبرت بن چکی ہے جس کے ہر صفحے پر اُس کے بانی کی بے حکمتی، انا پرستی، ہٹ دھرمی، خُود شکنی اور سیاسی فہم و فراست سے محرومی کے نوشتے رقم ہیں۔

یومِ تکبیر پر مسلح افواج، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس کی عوام کو مبارکباد

تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی، عمران خان نے پہلے ہدف کا تعین کرتے ہوئے، تحریکِ عدم اعتماد کو ”رجیم چینج“ (حکومتی تبدیلی) کی عالمی سازش قرار دیا۔ سائفر لہراتے ہوئے اُسے امریکی اور مقامی ”میرجعفروں، میر صادقوں“ کی ملی بھگت کا نام دیا۔ مظلومی سے جڑے جرأت وبہادری کے خود تراش نظریے کو ”ہم کوئی غلام ہیں؟“ ”غلامی نامنظور“ اور ”آزادی“ جیسے انقلابی نعرے دیے۔ اسی دوران جنرل باجوہ سے ملاقاتوں میں التماس کی کہ پی۔ڈی۔ایم کو فارغ کرکے اُنہیں پھر سے وزارت عظمی کی مسند پر بٹھا دیا جائے۔ اس کے عوض جنرل باجوہ کو تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کی۔

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا ؟

عمران خان کا دوسرا اہم ہدف یہ تھا کہ پاکستان معاشی طورپر سنبھلنے نہ پائے اور دیوالیہ قرار پاکر زمیں بوس ہوجائے۔ اس ہدف کے لئے اُنہوں نے دلجمعی سے........

© Daily Pakistan (Urdu)