menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

  پانچ جولائی 1977 ء ملکی تاریخ کا ایک باب

16 0
06.07.2025

5جولائی1977ء‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا نہایت اہم باب ہے، آج 48 سال گزر گئے چکے ہیں‘ کم و بیش نصف صدی کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے‘ مگر پانچ جولائی 1977ء آج بھی اس لئے سیاسی موضوع ہے کہ اس ملک میں اس وقت تک دو ہی سیاسی لیگیسی چل رہی ہیں‘ ایک بھٹو صاحب کی اور دوسری جنرل ضیاء الحق شہید کی‘ دونوں کی اس دنیا سے رخصتی غیر طبعی ہوئی‘ پانچ جولائی کسی کے لئے نجات دھندہ ہے اور کسی کے لئے برا شگون‘ کسی پسند اور تعصب کے بغیر ہمیں پانچ جولائی کا جائزہ لینا چاہئے بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستانی سیاست کے اہم کردار‘ وکلاء حضرات یا تاجر‘ صنعت کارجو آج بھی اللہ کے کرم اور فضل سے حیات ہیں‘ جنہوں نے 5جولائی1977ء کو ہوتے دیکھا‘ انہیں چاہئے کہ ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ دیں تاکہ ہماری نوجوان نسل اصل حقائق سے آگاہی حاصل کرسکے‘ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے‘ جہاں اقتدار کا حق عوام نے اپنے منتخب نمائندوں کو دیا‘ اور اسی آئین نے اپنے آرٹیکل 5 میں پاکستان کے ہر شہری کو پابند بھی بنا دیا ہے کہ وہ آئین اور ریاست کا وفادار رہے گا‘ اس رائے سے ہر گز ہرگز اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ فوج کو اقتدار کا حق حاصل ہے لیکن اس رائے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلح افواج ہماری جغرافیائی‘ نظر یاتی سرحدوں کی ذمہ دار ہے اور ملک کی داخلی سلامتی کے مسائل سے بھی خود کو الگ نہیں رکھ سکتی‘ یہ اس ملک کی ترقی‘ استحکام کے لئے ان کا عزم ہے‘ ہماری مسلح افواج نے ابھی مئی میں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی جس بے مثال انداز میں حفاظت کی‘ رہتی دنیا تک بھارت اور اس کے دنیا بھر میں ہم نوا اپنے زخموں پر مرہم رکھتے رہیں گے لیکن جو زخم ہماری فوج نے آپریشن ’بنیان المرصوص‘ معرکہ حق میں بھارت کو دے دیا ہے یہ تا قیامت نہیں بھرے گا بلکہ اس میں سے بھارت کی نسلوں کا ناپاک خون رستا رہے گا‘5 جولائی1977ء محض ایک دن ہی نہیں‘ ایک تاریخ ہے‘ پانچ جولائی 1977ء اور 16دسمبر 1971ء کے درمیان محض ساڑھے پانچ سال کا وقفہ ہے‘ پوری قوم آج بھی سانحہ مشرقی پاکستان کے غم سے باہر نہیں نکل سکی اس وقت تو اس سانحے کومحض ساڑھے پانچ سال ہوئے تھے‘ یہ وہ حالات تھے جب ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے جس کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور ادھر ہم ادھر تم‘ کا سیاسی ماحول بنا دیا گیا‘ اس کے بعد جب ملک میں مارچ1977ء کے انتخابات ہوئے‘ یہ انتخابات دراصل بھٹو صاحب کے اقتدار کے عوامی احتساب کا ذریعہ تھے‘ ووٹ کی طاقت نے فیصلہ کرنا تھا کہ اقتدار کس کا حق ہے اگر بھٹو صاحب کی اس وقت کی کابینہ‘ اور خود بھٹو صاحب بھی بلامقابلہ منتخب نہ ہوتے اور عوام کے ووٹ سے منتخب ہوجاتے تو کسی کو کوئی تکلیف ہی نہیں تھی مگر جب پوری کابینہ اور خود بھٹو صاحب بھی ”بلامقابلہ منتخب“ ہوگئے تو اس وقت کی اپوزیشن کی بنائی ہوئی رائے عامہ کی بنیاد پر عوام اٹھ کھڑے ہوئے‘ حتی کہ ملک کے حالات اس قدر خراب ہوئے کہ بھٹو نے خود فوج سے درخواست کی کہ وہ حید آباد‘ لاہور اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال سنبھالنے میں سول انتظامیہ کی مدد کرے اور امن کے قیام کی ہر حد تک جاکر کوشش کی جائے‘ حالات چونکہ انتہاء درجے کے خراب تھے لہٰذا فوج نے اس درخواست پر عمل کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مارشل لاء نافذ کرے‘مارچ1977ء کے انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی‘ اپوزیشن کے لئے عوام کے پاس جانے کے مساوی مواقع ہوتے تو کبھی بھی ملک میں مارشل لاء نہ آتا‘ صرف ایک فریق کو ہی دوش دیے جانا مناسب نہیں ہے‘ 1970ء کے بعد یہ دوسری بار ہوا کہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور عوام سڑکوں پر نکل آئے‘ یہی تلخ حقائق ہیں 5جولائی 1977ء کے فوجی اقدام سے متعلق بہت کچھ کہا اور لکھا بھی گیا،بہت کچھ لکھا بھی جارہا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی سیاسی لیگیسی نہ صرف موجودہے بلکہ اس ملک کی ترقی، سلامتی،خوشحالی اور اس ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے کے ناقابل تسخیر اقدامات کی وجہ سے عوام میں ان کی سیاسی وراثت کا دائرہ مسلسل پھیل رہا ہے، جب بھی ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور ملک میں اسلامی نظام حیات کے عملی نفاذ کے لئے کیے گئے اقدامات کا ذکر ہوگا تو صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوسکتا‘ یہی وجہ ہے کہ 17اگست کو ان کے یومِ شہادت پر ہر سال ملک بھر سے لاکھوں عقیدت مند دُعا کے لئے آتے ہیں‘ ملک کے شہری اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہمارا بھی فرض ہے کہ تاریخ پر نظر رکھیں اور اسے درست انداز میں حقائق کے ساتھ بیان کریں اسے تعصب کی نگاہ سے نہ بیان کیا جائے‘ ہمیں ہمارا آئین‘ نظریہ پاکستان، اسلام اور اس ملک کی مٹی کا ایک ایک ذرہ حقائق کا ساتھ دینے اور اس کا پرچار کرنے کی تلقین کرتا ہے، پاکستان کے آئین، اور کسی بھی جمہوری پارلیمانی نظام میں آئین سے ہٹ کر اور اس کے متعین کردہ دائرے سے باہر نکل کر ملک کا نظم و نسق سنبھالنا سیاسی جمہوری لحاظ سے کبھی پسندیدہ عمل نہیں سمجھا گیا، اور نہ سمجھاجائے گا، لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہماری مسلح افواج نے ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے اور اس پر صدق دل سے عمل بھی کر رہی ہے‘ بلوچستان‘ وزیرستان جیسے علاقوں میں ہمیں آئے روز اپنے جوانوں کی شہادت کی خبر ملتی رہتی ہے‘ خوارج اور فتنہ الہندوستان کے خلاف تو ہماری فوج آج بھی محاذ پر ہے یہ ملک بچانے کے اسی عزم کا نآان ہے جو ہماری مسلح افواج نے طے کر رکھا ہے‘ حالات جب اس نہج پر پہنچ جائیں تو اور ملکی دفاع اور اس کی سلامتی ہی اصل متاع عزیز ہو تو پھر ملکی سلامتی کے تحفظ کو ترجیح دینا ہی ملکی سلامتی کے تحفظ کی قسم کا تقاضہ کرتا ہے‘ کہ آگے بڑھیں اور ملک بچائیں‘ پانچ جولائی 1977ء کے اقدام کیوں اٹھایا گیا؟ یہ سوال اس قدر اہمیت کا حامل ہے اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے سیاست کے طالب علموں کو........

© Daily Pakistan (Urdu)