کر لو جو کرنا ہے۔۔ ہم ہیلمٹ نہیں پہنیں گے۔
ہیلمٹ یا سر کو بچانے کے لئے کوئی مضبوط ٹوپی۔ سر بچانے کی یہ جدوجہد انسان آج سے نہیں کر رہا جب سے انسان کے ہاتھ میں تلوار ائی، نیزا آیا، تو انسان نے چھاتی بچانے کے لئے زرہ بکتر بنائی، سر کو تلوار کے وار سے بچانے کے لئے ”آہنی خود“ بھی بنائے۔ گزرتے وقت کے ساتھ جنگیں گولیوں سے میزائلوں پر پہنچ گئی ہیں، لیکن عام زندگی میں سڑک پر ہونے والے حادثات میں زندگی بچانے کے لئے ہیلمٹ ایک ”آہنی خود“ ہے۔اگر سر پر ہیلمٹ موجود ہو تو کم از کم انسان سر کی چوٹ سے بچ سکتا ہے۔ ہیلمٹ نہ ہونے کی صورت میں موٹر سائیکل سوار کو سر کی چوٹ بھگتنا ہوتی ہے۔ ہیلمٹ کو لازمی قرار دینے کی مہم دوسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوئی جب ہیلمٹ پہننا لازم قرار دے کر ٹریفک چالان شروع کیے گئے۔ اس وقت کہا گیا کہ ”کسی پارٹی“ نے ہیلمٹ منگوائے ہیں اور اب اس ”پارٹی“ کے ہیلمٹ بکوانے کے لئے ہیلمٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں حکومتیں فیصلے کر لیتی ہیں۔ذاتی فائدہ ہو تو فیصلے برقرار رہتے ہیں، عوام کا فائدہ ہو تو فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ہیلمٹ بھی ایک ایسا فیصلہ تھا، جس پر جب کوئی اچھا افسر آگیا اور سختی کی تو شور مچا اور اس افسر کو ہی بدل دیا گیا کہ یہ بڑا ظالم ہے زبردستی ہیلمٹ پہننے کو کہتا ہے۔
27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہمارچ1995ء میں سارک فٹبال گولڈ کپ ٹورنامنٹ کے لئے پاکستان فٹبال ٹیم کے ساتھ کولمبو جانا ہوا شام کو ہر موٹر سائیکل سوار کے پاس ایک اضافی........





















Toi Staff
Gideon Levy
Tarik Cyril Amar
Stefano Lusa
Mort Laitner
Robert Sarner
Andrew Silow-Carroll
Constantin Von Hoffmeister
Ellen Ginsberg Simon
Mark Travers Ph.d