شوگر اور کرپشن
بابا جی بھی کمال کی شخصیت تھے۔ عثمان ستار مجھے ان کے پاس لے گیا۔ خود چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے، مگر اس قسم کے کردار ڈھونڈتا رہتا ہے۔ عثمان کے والد عبدالستاربھی ملک کے مشہور ٹیکس کنسلٹنٹ ہیں۔ کئی مرتبہ ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ خود بھی اللہ لوک آدمی ہیں، شاید اسی لئے عثمان ستار میں اس قسم کے عادات پیدا ہوگئی ہیں۔ وہ کئی دن سے کہہ رہا تھا ایک پہنچی ہوئی ہستی سے ملوانا ہے۔ میں ایسی بات سن کر ڈر جاتا ہوں کیونکہ پھر خود بھی کہیں پہنچنے کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے، مگر عثمان کا اصرار تھا کہ ایک بار ضرور ملیں، سو اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے میں بابا جی کے پاس چلا گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب سے میں لاہور میں تکیہ تارڑ سے ہوکر آیا ہوں بابوں سے خوف آنے لگا ہے کہ نجانے وہ کس بات کا بُرا منائیں اور چلانا شروع کر دیں تاہم اس خیال سے کہ شاید کوئی اچھی بات مل جائے، کوئی اچھا تجربہ ہو جائے میں چلا گیا۔ بابا جی کا جو تصور میرے ذہن میں بن چکا تھا، وہاں پہنچا تو وہ اس کے برعکس نکلے۔ وہ مجھے کچھ ماڈرن سے نظر آئے، بہرحال عثمان نے انہیں میرا بتایا اور کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کے بتا دیا، جیسا آج کل کے نوجوان کرتے ہیں کہ اپنے کسی پسندیدہ شخص کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ انہوں نے مصافحہ کے بعد کہا آیئے پروفیسر صاحب آج آپ کی سنتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں جناب میں تو آپ کی سننے آیا ہوں۔ کہنے لگے ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ دو افراد اس بات کی ضد کریں، وگرنہ یہاں تو ہر کوئی اپنی سنانا چاہتا ہے، دوسرے کی........
© Daily Pakistan (Urdu)
