ہر عمل کا ردعمل
شعر و ادب کی خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہر دور کے حالات وواقعات کا عکس دیکھا جا سکتا ہے، بلکہ سارا کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک وقت تھا جب شعرو شاعری کے دامن میں بجز حسن وعشق کے کچھ بھی نہیں تھا اور یہ ایک خوبصورت موضوع تھا جس میں کیف وسرور، رونق میلہ، سوزوگداز،غیرت ویرت، جذب ومستی، میلہ ٹھیلہ، کارو کاری، کورٹ میرج، شہنائی ونائی اور طلاق ولاق وغیرہ وغیرہ۔ بات تو حسن وعشق کی ہوئی تھی لیکن اس کی ککھ سے بے شمار موضوعات نے جنم لے لیا بلکہ ایک شاعر نے تو یہ کہہ کر سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔ ع۔ پیار دی کہانی لوکو کتھے آکے مک گئی۔۔ہاسیاں توں شروع ہوئی تے ہنجواں تے مک گئی۔ شاید زندگی بھی ہنسی اور رونے کے درمیان درمیان رہتی ہے۔ (غم ہے یا خوشی ہے تو۔۔میری زندگی ہے تو) درحقیقت غم اور خوشی کا نام ہی زندگی ہے۔ جو ہمت کرتے ہیں وہ آگے بڑھ کر منزل کو جپھہ ڈال لیتے ہیں اور سوچنے والے سوچتے رہ جاتے ہیں اور بقول شاعر (کچی ٹٹ گئی جنہاندی یاری۔۔۔تے پتناں تے رون کھڑیاں) پتن بھی عجیب لانچنگ پیڈ ہے کسی کو پار گزارنے کا سبب بنتا ہے اور کسی کا وہاں پاؤں پھسل جاتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی ویسے تو اپنے خدوخال کے اعتبار سے سگی بہنیں ہوتی ہیں بس فرق اتنا ہے کہ (اکناں نوں رنگ چڑھ گیا۔۔اک راہے گئے امن و اماں) شہنائیاں شاعری کو خوبصورت بناتی ہیں لیکن اس کے آنگن میں سوزو گداز دو دلوں کے درمیان سماج کے آنے سے پیدا ہوتا ہے۔ کیدو ویسے تو مکروہ کردار ہے، لیکن وارث شاہ کی ہیر کہانی اس کے رویے کی وجہ سے ہی پنجاب کے کلچر کی آئینہ دار بنی ہے۔ ورنہ ہیر رانجھا........
© Daily Pakistan (Urdu)
