کیا اس طوفان پر بھی کسی کی نظر ہے؟
کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے سوشل میڈیا بند کر دوں، ٹچ موبائل کو پھینک کر وہی پرانا کی پیڈ والا موبائل استعمال کروں، کم از کم اس اذیت سے تو بچ سکوں جو آج کل سوشل میڈیا کے ٹولز فیس بُک، واٹس اپ،انسٹا گرام، ایکس اور نیپ چیٹ پر اَپ لوڈ ہونے والے مواد کو دیکھ کر ہوتی ہے۔روزانہ لاشوں کے مناظر، ہر روز قتل کی وارداتوں کی خبریں، چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں جان سے مارنے کے واقعات، ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور باپ کو زندگی سے محروم کرنے کے دِل دہلا دینے والے منظر،کہیں حادثات میں پڑی لاشیں اور کہیں سیلاب کی نذر ہونے والی گاڑیوں کی باقیادت۔کیا یہی کچھ ہے سوشل میڈیا۔ جب سب کچھ کسی ضابطے،پابندی اور رکاوٹ سے آزاد ہو جائے گا تو پھر یہی اذیت کے سامان ہوں گے۔اس سوشل میڈیا سے پہلے بھی ایک اطلاعاتی نظام تھا، قتل، زیادتی اور دیگر اِس نوعیت کی خبریں پہلے بھی آتی تھیں، مگر ایک سلیقے، قرینے اور ڈھکے چھپے انداز سے تاکہ معاشرے میں خوف یا مایوسی نہ پھیلے، لاشیں اس طرح نہیں دکھائی جاتی تھیں، جیسے اب دکھائی جاتی ہیں۔گذشتہ دِنوں ایک ٹی وی اینکر خاتون کی ایک فلیٹ سے کراچی میں چھ ماہ سے بھی زیادہ پرانی لاش ملی تو ظالموں نے اس کی تصویر بنا کر بھی سوشل میڈیا پر ڈال دی۔اُس میں دکھانے والی آخر کیا چیز تھی؟ مگر جس جنونی نے وہ تصویر بنائی وہ ایک بڑے سکوپ کے جنون میں مبتلا ہو گیا۔ ہماری تو خیر ہے کہ ہم ایسی تصویروں اور واقعات میں زندگی گذار کے پتھر دِل ہو چکے ہیں، لیکن جو آج کی نسل ہے۔ وہ بچے ہیں جن کے ہاتھوں میں موبائل دے دیئے گئے ہی،جنہیں ابھی عقل ہے نہ شعور،ایسے مناظر،ایسے واقعات اور........
© Daily Pakistan (Urdu)
