کبھی ضرورت اب ذمہ داری
کل شام ایک بچپن کے دوست کی تیمارداری کے لئے ان کے بیٹے کے گھر جانا ہوا۔صاحب گھر کے ایک کمرے کے کونے میں صاحب فراش تھے۔ چند لمحے انتظار کے بعد مجھے ان کے پاس دیر تک بیٹھنے کا موقع میسر آ گیا۔چائے پانی کا رسماً پوچھ کر ملازم واپس چلا گیا اور ہم خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ بیماری کی بات اس لئے دیر سے شروع کی کہ گھر کو کچھ دیر ہسپتال کے ماحول سے دور رکھا جا سکے۔یہ زندگی بھی از خود بے وفا سے کم نہیں۔جب زندگی گزارنے کا طریقہ اور آسائش کا سامان ارد گرد ضرورت سے زیادہ نظر آتا ہو،مگر آپ کو وقت کی قلت کا احساس شدید تر بھی ہو اور اس کو استعمال نہ کرنے کا مشورہ بھی ہو تو ایسے حالاتِ میں انسان پر کیا گزرتی ہو گی۔ اس کا اندازہ کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اگرچہ ان کی دوا کا وقت بھی تھا اور آرام کا بھی مگر وہ ہاتھ پکڑ کے مزید کچھ دیر رکنے پر بضد ہوئے،سو ہم بھی یہی چاہتے ہوئے اور قریب ہو گئے۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ احساس اور زور پکڑ گیا کہ انسان کو دنیا سے رخصت اِس وقت سے پہلے ہو جانا چاہئے کہ جب وہ کسی کی ذمہ داری یا بوجھ بن جائے۔ آدمی جب تک ضرورت کے درجے پر فائض رہتا ہے اس کی قدر بھی کی جاتی ہے اور خدمت بھی۔اس........
© Daily Pakistan (Urdu)
