سہیل وڑائچ
ڈیئر قیدی!
مسافر خانہ، منزل نگر
کوئی مانے نہ مانے اپنے تئیں تو مسافر خود کو جمہوری سمجھتا ہے اور آپ کو ذاتی طور پر علم ہے کہ مسافر نے 9مئی کے واقعہ سے پہلے آپ کے پاس ذاتی طور پر اور صحافیوں نے اجتماعی طور پر سیاسی مصالحت یا مقتدرہ سے مصالحت کی تجویز پیش کی تھی اور گزشتہ دو ڈھائی سال سے مصالحت کی رٹ لگا لگا کر مسافر خود کو شرمندہ شرمندہ محسوس کرنے لگا ہے کہ نہ مصالحت کی بات مقتدرہ کو اچھی لگتی ہے نہ ہی نون لیگ کو یہ تجویز پسند آتی ہے اور حیران کن طور پر بحران کا شکار ہونے اور آپ کے دو سال سے جیل میں ہونے کے باوجود انہیں بھی یہ راستہ پسند نہیں۔ راستہ اب بھی وہی ہے ورنہ لڑائی سے کبھی نہ راستہ نکلا ہے نہ نکلے گا۔
قیدی جی! پاکستان کی تاریخ تضادات سے بھری ہے۔ ماضی کے واقعات سے سبق سیکھ کر ہی راستہ نکل سکتا ہے مقتدرہ سے سیاستدانوں کی جنگ بھی ہوتی رہی ہے اور وقتاً فوقتاً سیاستدانوں کو مقتدرہ کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو انہیں جی ایچ کیو میں بلا کر نہ صرف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا بلکہ صدر کا تاج بھی انکےسرپرسجایا گیا، اس وقت وہ مقتدرہ کے محبوب رہنما تھے مگر جب 1977 ء میں انہیں اقتدار سے اتارا گیا تووہ معتوب ہو گئے اس وقت دو نقطہ ہائے نظر تھے کہ جنرل ضیاء الحق نان پاپولر ہے، دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم کو ہٹا کر فوج اپنا اقتدار زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکے گی یہ بھی خیال تھا کہ بھٹو جیسے پاپولر لیڈر کو جیل میں رکھنا اور پھانسی دینا ناممکن ہے، ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ بھٹو ضیاء الحق سے لڑائی نہ کریں خاموشی سے جلاوطنی اختیار کر لیں اور دوبارہ اچھا وقت آنے پر واپس آ جائیں مگر بھٹو صاحب اور انکے جیالوں کا نقطہ نظر غالب رہا جسکے مطابق مخاصمت لڑائی اور سیاسی جدوجہد ہی بہترین راستہ ہے چنانچہ پیپلز پارٹی نے اپنے راستے کو چنا اور نتیجہ بھٹو کی پھانسی میں نکلا ۔نہ دنیا بھر کے لیڈروں کی اپیلوں نے کام کیا نہ سپریم کورٹ نے انصاف کیا اور نہ احتجاجی تحریک جنرل ضیاء الحق کو اس کے ارادوں روک سکی۔ دس سال لگ گئے جنرل ضیاء الحق فضائی حادثے میں جاں بحق........
© Daily Jang
