محمد محسن اقبال
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس امتیاز کے حامل ہیں کہ وہ دوسری مرتبہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر منتخب ہوئے۔ اپنے دورِ صدارت میں انہوں نے دنیا کے مختلف خطوں کے دورے کئے جن میں سے ہر ایک خبر سازی کے کئی پہلو چھوڑ گیا۔ اپنے پیش روؤں کے برعکس، صدر ٹرمپ نے تقریر اور اندازِ اظہار دونوں میں روایت شکن روش اپنائی۔ خبر بنانے اور خود کو موضوعِ گفتگو بنائے رکھنے کی انکی صلاحیت کسی طور کم صحافتی نہیں لگتی۔ حالیہ دورۂ انگلستان نے اس حقیقت کو مزید نمایاں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ذاتی طور پر یہ درخواست کی کہ لندن کے میئر صادق خان کو ونڈسر کیسل میں بادشاہ چارلس سوم کی جانب سے دیئے گئے عشائیے میں نہ بلایا جائے۔ ٹرمپ نے بڑی صراحت سے کہا: ’’میں نہیں چاہتا کہ وہ وہاں ہوں، میں نے ہی کہا کہ انہیں نہ بلایا جائے۔‘‘ پھر انہوں نے صادق خان کو ’’دنیا کے بدترین میئروں میں سے ایک‘‘قرار دیا۔یہ ستم ظریفی ہی تھی کہ محض چند ہفتے قبل صادق خان کو ان کی سیاسی اور عوامی خدمات کے اعتراف میں’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ 9جولائی 2024ء کو بکنگھم پیلس میں ایک پُروقار تقریب کے دوران بادشاہ چارلس نے خود انہیں یہ اعزاز دیا۔ اس میں نہ صرف ان کی طویل خدمات بحیثیت میئر لندن کو سراہا گیا۔ جو وہ 2016ء سے ادا کر رہے ہیں —بلکہ سابق رکنِ پارلیمنٹ اور وزیر کے طور پر ان کی خدمات کو بھی تسلیم کیا گیا۔ اس تضاد نے امریکی اور برطانوی سیاسی نقطۂ نظر کے درمیان وسیع خلیج کو اجاگر کر دیا: ایک طرف ٹرمپ کی تند و تیز تنقید اور دوسری طرف برطانوی بادشاہت کا کھلا اعتراف۔ٹرمپ نے دراصل صادق خان پر حملہ کر کے لندن کی شہری حکمرانی اور نظام پر سوال اٹھایا۔ لیکن اگر اس تنقید کو امریکی شہروں کی زمینی حقیقتوں کے ساتھ پرکھا جائے تو یہ خاصی کھوکھلی دکھائی دیتی ہے۔میفِس (ٹینیسی) میں گینگز کی پرتشدد کارروائیاں، کار جیکنگ اور چوری روزمرہ زندگی کو متاثر کرتی........





















Toi Staff
Penny S. Tee
Sabine Sterk
Gideon Levy
Mark Travers Ph.d
Gilles Touboul
John Nosta
Daniel Orenstein