menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

وجاہت مسعود

29 10
31.08.2025

مفلسی میں آٹا گیلا۔ پاکستان بھر میں طوفانی بارشوں سے تباہی میں پنجاب کے بپھرے ہوئے دریا بھی شامل ہو گئے ہیں۔ لاکھوں کیوسک کے اعداد و شمار میں لپیٹ کر درمیانے اور اونچے درجے کے سیلاب کی خبریں ہمیں یہ نہیں بتاتیں کہ کس گھرانے کا برسوں میں کمایا معمولی ضرورت کا سامان لہروں کی نذر ہو گیا۔ کون سی آئندہ فصل تہ و بالا ہوگئی۔ کس خاندان کا واحد کفیل لاپتہ ہے۔ کس ماں کے ڈوبتے ابھرتے بچے مدد کیلئے پکارتے ہوئے اوجھل ہو گئے۔ کس بیٹی کا خوابوں میں لپٹا جہیز تیز لہروں میں بہ گیا۔ خبر واقعہ بیان کرتی ہے، فرد پر گزرنے والی کیفیت کا احاطہ نہیں کرتی۔ ہماری آنکھوں نے1973ء، 1988ء ،1992ء، 2010ء اور 2022 ء کے سیل بلاخیز دیکھ رکھے ہیں۔ قدرتی آفات کی تباہ کن قوت سے کسی کو چارہ نہیں تاہم اچھی حکومتیں مؤثر حفاظتی اقدامات سے جانی اور مالی نقصان کو ممکنہ حد تک کم رکھنے کا بندوبست کرتی ہیں۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے بیرونی امداد کی توقعات باندھ لی جاتی ہیں۔ پون صدی میں پاکستان غیر ملکی امداد کی مد میں 155 ارب ڈالر سے زیادہ وصول کر چکا ہے۔ 131 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض اس میں شامل نہیں۔2015 ءمیں پاکستان کو صرف تعلیم کی مد میں 649ملین ڈالر موصول ہوئے۔ اسکے باوجود پاکستان کی معاشی حالت سدھر سکی اور نہ شرح خواندگی 62 فیصد سے بہتر ہو سکی۔ 19ویں صدی میں کینیڈا کے دانشور Georges Dumont نے کہا تھا ۔“The development of population in a nation is in inverse ratio to the development of individual.” (کسی قوم میں آبادی کی شرح میں اضافہ اور انفرادی ترقی میں معکوس تعلق پایا جاتا ہے)۔ ہمارے ہاں معیشت کی شرح نمو 2025ءمیں 2.6فیصد رہی جبکہ آبادی میں اضافے کی شرح 2.55فیصد ہے۔ گویا آبادی اور معیشت میں اضافے کی شرح تقریباً برابر ہیں۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ ہماری معیشت داخلی پیداواری سرگرمی کی بنیاد پر ترقی کر سکتی ہے محض خوش فہمی ہے۔ اسکا ثبوت جی ڈی پی کی شرح نمو میں........

© Daily Jang