menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

حماد غزنوی

10 1
01.08.2025

سب کی طرح ہم بھی ایک زمانے تک قلم سے لکھتے تھے، انگریزی روزناموں میں اسّی کی دہائی کے آخر میں کمپیوٹر استعمال ہونے لگے تب بھی ہم قلم سے کاغذ پر لکھ کر کمپوزر کے حوالے کر دیا کرتے تھے، کمپیوٹر کا استعمال نہ سیکھنے کے ہمارے پاس کئی بہانے تھے، سب سے ’’مدلل‘‘ بہانہ تھا کہ خیال کی روانی اور جنبشِ قلم میں جو تال میل ہے وہ کمپیوٹر میں کہاں۔ پھر ایک دن کا ذکر ہے کہ ہم اپنا ’’شاہ پارہ‘‘گھر سے لکھ کر دفتر پہنچے تو ہمارے میگزین کے مدیر جلیس حاضر نے برجستہ کہا کہ’’آپ کو تو کسی سہ ماہی ادبی مجلے میں کام کرنا چاہیے، پہلے دور افق پر نظریں گاڑ کر دھوئیں کے مرغولے اڑائیں اور دماغ میں خیال مرتب کریں، پھر کاغذ پر لکھیں، پھر خوش خط لکھیں، پھر کمپوزر کو دیں، پھر غلطیاں لگائیں، پھر مزید غلطیوں کی نشان دہی فرمائیں، اور تب تک اخبار آپ کیلئے رکا رہے۔ میرے بھائی، یہ نئے زمانے کی رفتار نہیں ہے۔‘‘ انکی بات دل کو لگ گئی۔ کمپیوٹر پر آہستہ آہستہ ٹائپ کرنا سیکھنے لگے، شروع میں لکھتے کاغذ پر ہی تھے مگر اسے خود ہی ٹائپ کرنے لگے۔ حتیٰ کہ بیچ میں سے کاغذ قلم نکل گیا۔آغاز میں لکھنے کا کام گوشہء تنہائی میں ہوا کرتا تھا، کامل یکسوئی سے۔ اخبارات میں کام شروع کیا تو رپورٹنگ روم کے شور میں خبریں لکھنے کی عادت پڑ گئی، لیکن خبروں سے زیادہ ’’سنجیدہ‘‘تحریر لکھنےکیلئےپھر بھی خاموشی اور تنہائی کی خواہش ہوا کرتی تھی۔ ٹیلی فون پر اردو سافٹ ویئر آ گئے تھے، مگر کالم لکھنے کیلئے ہم لیپ ٹاپ کا ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ سارا قصہ اس لیے یاد آیا کہ ڈلس ایئرپورٹ واشنگٹن کے ایک ٹرمینل پر بیٹھ کر، ہزاروں آتے جاتے افراد کے ہنگامے کے عین درمیان، یہ کالم اپنے فون پر لکھا جا رہا ہے۔ سنتے ہیں جو مخلوق بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ خود کو ڈھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو نابود ہو جاتی ہے۔ ڈائنو سار تو یونہی بدنام ہیں، وہ بے چارے تو ایک حادثے کا شکار........

© Daily Jang