محمد خالد وسیم
میر ے شہر سیالکوٹ کی فضا سانحہ سوات میں وفات پانے والے افراد کی وجہ سے سو گوار ہے۔ ہر شہری غمزدہ اور ہرچہرہ پژمردہ نظر آرہا ہے ۔ ڈسکہ سے ہنسی خوشی سیر و سیاحت کے لئے جانے والے افراد کو کیا معلوم تھا کہ دریائے سوات کے پانی کی لہروں میں موت کے پنجے انہیں دبوچنے کے لئے انتظار میں ہیں ۔دریا کنارے ناشتہ کرنے کے بعد پانی میں تصویریں بنانے کے شوق نے انہیں پا نی کے آنیوالے بڑے ریلے سے بے خبر رکھا اور وہ جان بچانے کی جدو جہد میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ کنارے پر کھڑے متعدد افرادبے بسی کی حالت میں منہ میں انگلیاں دبائے انکی کوئی مدد نہ کرسکے۔ ریسکیوکے افراد نے تندو تیزلہروں کے درمیان پرانی سی کشتی کی مدد سے چار افراد کی جان بچائی مگر تیرہ افراد موت کی وادی میں اتر گئے۔نئی ٹیکنالوجی اور نئی ایجادات کی جہاں افادیت ہے وہیں پر بے جا استعمال سے بہت سی خرابیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ موبائل فون میں کیمرے نے ہر انسان کو اتنا خود پسند بنا دیا ہے کہ ہر شخص اسکا اسیر ہوکر رہ گیا ہے۔ انوکھی جگہوں پر منفرد نظر آنے کیلئے فوٹیج اور تصویربنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کا جنون بعض دفعہ جان لیوا ثابت ہو تاہے۔ آئے دن سیلفی بنانے والوں کی اموات کی خبریں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ حفاظتی اقدامات کے بغیر پر خطر جگہوں پر ایکشن کرکے فلم بندی کرنا حماقت کے علاوہ کچھ نہ ہے۔جب حفاظتی اقدامات کی بات ہوتی ہے تو سار ا ملبہ خکومت پر ڈال دیا جاتاہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پبلک مقامات پر حفاظتی اقدامات کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مگر ان حفاظتی اقدامات پر عمل کرناعوام کی ذمہ داری ہے۔ حکومتی اداروں میں کرپشن مافیا اپنی ذاتی لالچ اور طمع کی وجہ سے عوامی حفاظت اور فلاح و بہبود کے کاموں سے روگردانی کر جاتا ہے۔ جس سے سانحہ سوات جیسے........
© Daily Jang
