مظہر عباس
’’تم سب میری رعایا ہو اور تمہاری آوازیں چھین لی گئی ہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ یہی حکم ہے۔ مگر تمہیں آوازیں بانٹی جائیں گی۔ ہماری مرضی سے دی جانیوالی آوازیں اب تمہاری ہوںگی۔ یہ طوطے ہمارے متعین کردہ ثالث بھی ہیں اور منصف بھی‘‘۔ صحافی، افسانہ نگار اور اداکار شاہد نقوی کی دوسری کتاب ’افسانے شاہد ہیں‘ کا یہ پہلا افسانہ پڑھ کر جب میں گزشتہ ہفتے اعلیٰ عدالتوں میں گیا تو نجانے مجھے کیوں ایسا لگا کہ ابھی افسانہ ختم نہیں ہوا۔ پھر کچھ معزز ججز صاحبان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا تو میرا خدشہ حقیقت میں بدلتا محسوس ہوا کہ واقعی ہماری آوازیں چھین لی گئی ہیں۔ ایک گونگے، بہرے، اندھے معاشرے میں ہم اصول، اخلاقیات، آئین و جمہوریت کو تلاش کر رہے ہیں۔ بہت سی جو آوازیں، چیخ و پکار، تجزیے آپ کو اسکرین پر نظر آتے ہیں وہ ’انہیں‘ کی دی ہوئی آوازیں ہیں بس لب ہمارے ہیں، تحریر کہیں اور کی ہے۔ یہ افسانہ بھی کسی ایسے ہی ایک شخص کا ہے جسکی آواز اچانک چلی جاتی ہے۔ وہ اپنی آواز واپس لانے کیلئے بازار میں نکل جاتا ہے ’’سوداگر نے اُسے بتایا آواز تو اُسے مل جائیگی پر حلق کا آپریشن ہو گا اور یہ وہ خود کریگا کیونکہ سب کو سرکار کا یہی حکم ہے۔ مرتا کیا نا کرتا رضا مندی ظاہر کر دی ۔ آپریشن کے بعد جب وہ بولا تو اُسکی آنکھ میں آنسو آ گئے۔ طویل عرصے بعد اُسے آواز واپس مل گئی مگر چند روز گزرنے پر احساس ہوا کہ اُسکے حلق سے روٹی، کپڑا، مکان، انا، عزت اور غیرت جیسے الفاظ حذف کر لیے گئے ہیں‘‘
میں ایک عدالت پہنچا تو نا جانے کیوں مجھے لگا کہ جو حج صاحب بول رہے ہیں وہ اُن کے الفاظ نہیں۔ پھر میری ملاقات چند جج صاحبان سے ہوئی اور اُن کی باتوں سے مجھے وہ مفروضہ یاد آ گیا، حالات کا ماتم تھا ملاقات کہاں تھی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ پہلے ادوار میں خاص طور پر مارشل لا کے دور میں آوازیں بند کر دی جاتی تھیں، سنسر شپ لگا کر صحافت کو گونگا کر دیا جاتا تھا، قلم اپنا تھا مگر سیاہی کسی اور کی۔ چلیں اُس وقت اندازہ تھا کہ جب تک فوجی آمریت ہے آپ نے گونگا ہی رہنا ہے۔ ہم اس جبر کے خلاف آواز بلند کرتے مگر حلق سے آواز نہ نکالنے دی جاتی۔ ہم عدالتوں میں بھی گئے مگر یہ سوچ کر کے چلو اگر انصاف اندھا ہوتا ہے کم........
© Daily Jang
