ڈاکٹر صغرا صدف
موت کو برحق مان کر ہم سب دوسرے جہان جانے کا سرسری تذکرہ کرتے رہتے ہیں مگر نظر کے سامنے کوچ کرتے لوگوں کو دیکھ کر بھی موت کا اس طرح اعلان نہیں کرتے جس طرح تجمل کلیم نے کیا۔
پچھلے دو تین سال سے شاعری میں نئی ریت اور اسلوب کا نمائندہ تجمل کلیم صحت کی صعوبتوں کا شکار تھا ، ایک بار صحت مند ہو کر گھر لوٹ آیا مگر تخیل کی اْڑانیں بھرنے والے نے طبیبوں کی تجویز کردہ زمینی احتیاط کا پاس کیا نہ اپنے معمولات انکی مرضی کی خوراک اور دوا دارو سے باندھے ، نہ دوستوں کی سجائی شعر کی محفلوں سے منہ موڑا اور نہ منہ کو لگی کافر دوا کو چھوڑا ، شاید اگلے سفر پر روانہ ہونے کی جلدی پھر ہسپتال لے گئی۔ لاغر جسم نے سوچنے اور محسوس کرنے کو سانس لینے کیساتھ مشروط کر دیا ، بیماری کے کربناک لمحات میں روز قریب اور دور دراز سے شعر وادب سے جڑے دوستوں کی حاضری اسے توانائی دیتی تھی، وہ ان کی مہمانداری میں انھیں تازہ کلام پیش کرتا جس میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا جانے والا مکالمہ اور آخری سانس کی سرگوشی شامل ہوتی تھی۔ دوست یہ شعرسن کر تڑپ جاتے اور وہ مسکراتا رہتا ،اتنی گہری مسکراہٹ کہ آنسو گرنے لگتے۔
دن تے گن میں مر جانا ای
تیرے بن میں مر جانا ای
میں گڈی دے کاغذ ورگا
توں کِن مِن میں مر جانا ای
جیہڑے دن توں کنڈ کرنی اے
اوسے دن میں مر جاناای
جان دی بولی لا دتی او
اک، دو، تن، میں مر جانا اے
خود مریا واں تیرے تے
تیتھوں نئیں ساں مردا میں
تجمل کلیم سے پہلے پنجابی شاعری پر بھاری شاہانہ لب و لہجے اور دقیق لفاظی کا راج تھا ۔ تجمل کلیم نے روزمرہ برتے جانیوالے مقامی........
© Daily Jang
