menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

ایوب ملک

13 31
25.05.2025

تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہندوستان اور پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہوکر بالآخر جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے جو اس پورے خطے کے عوام کیلئے ایک نیک شگون ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں ہندوستان اور پاکستان کے راہنمائو ں کو چاہیے کہ وہ دیر پا امن کیلئے گفت وشنید کا آغاز کریں اور یہ گفت و شنید اس وقت ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب دونوں فریق دل وجان سےدہشت گردی کے خاتمے پر متفق ہوں۔

یاد رہے کہ برصغیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ اس سرزمین سے باہر کبھی حملہ نہیں کیا گیا۔ اس سرزمین نے نہ صرف حملہ آوروں کو اپنے اندر سمویا بلکہ وہ تہذیبی روایتیں جو یہ حملہ آور اپنے ساتھ لائے تھے، انہیں بھی اپنے سماج کا حصہ بنا لیا۔ اشوکا نے 272سے 232قبل ازمسیح تک ہندوستان میں حکومت کی لیکن اچانک ’’کلنگہ‘‘ (اوڑیسہ کا پرانا نام) کی جنگ میں اس قدر لوگ مارے گئے کہ اشوکا کو خود جنگ سے نفرت ہو گئی جس کا اظہار وہ ایک کتبہ میں اسطرح کرتے ہیں۔ ’’میں نے اپنی تخت نشینی کے8سال بعد ہی کلنگہ کو فتح کر لیا اور اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ قیدی بنائے گئے جس نے مجھے بے حد غمگین اور افسردہ کر دیا۔ کیونکہ جب بھی کسی ملک کو فتح کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے جاتے ہیں، لوگوں کے رشتے دار، دوست اور ملازم مارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے میں رنجیدہ ہوں اور میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دھرم پر عمل کرونگا اور لوگوں کو دھرم کی تعلیم دوں گا۔ میرا یقین ہے کہ لوگوں کو دھرم کے ذریعے جیتا جا سکتا ہے نہ کہ طاقت کے ذریعے۔ میں اس پیغام کو کندہ کر رہا ہوں تاکہ مستقبل میں میرا بیٹا اور آنے والی نسلیں جنگ کے بارے میں نہ سوچیں۔ اس کے برعکس وہ کوشش کریں کہ دھرم پر عمل پیرا ہو کر لوگوں میں امن و آتشی پھیلائیں‘‘۔ جنگ کے بعد اشوکا نے بدھ مذہب اپنا کر امن و صلح اور رواداری کو فروغ دینا شروع کیا۔ اس نے امن کا پیغام اپنے سفیروں کے ذریعے شام،........

© Daily Jang