محمود شام
مجھے تو اس امر پر پورا یقین ہے آپ بھی میری یہ سطور پڑھنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان میں جو بھی سیاسی سماجی اور انتظامی طور پر ہو رہا ہے یہ پورے عالمی منظر نامے کا ایک حصہ ہے۔ آج آپ سے آفاقی صورتحال پر بات کرنا ہے مگر اس سے پہلے ایک ادبی علمی اور تدریسی صدمے پر کچھ سطور۔ ہمارے مہربان اور اردو زبان کے عاشق، انتہائی اہم تحقیقی دستاویز تخلیق کرنے والے 'میرپور آزاد کشمیر میں خاموشی سے تحقیق و تالیف میں مصروف پروفیسر غازی علم الدین ماہنامہ اطراف سمیت اکثر علمی ادبی جرائد کو پرمغز مضامین سے مالا مال کرنے والے کینسر کا مقابلہ کرتے کرتے سات اپریل 2025کو اس دنیا سے اٹھ گئے۔ مشکلات کا سامنا کرتی 'قومی زبان ہوتے ہوئے سرکاری اختیار سے محروم اردو زبان کیلئے ان کی تحریریں بہت ہی منفرد اور وقت کے تقاضے پورےکرتی تھیں۔ مرحوم تمام اہم درسگاہوں کی لائبریریوں کو، ادبی جرائد کو یہ قیمتی خزانے تحفے کے طور پرارسال کرتے۔ لسانی مطالعے 'تخلیقی زاویے، لسانی زاویے، اردو کا مقدمہ، میزان انتقاد و فکر ان کی گراں قدر تصنیفات ہیں۔ اردو املا، اردو نام، 'اردو تراکیب اور اصطلاحات پر ان کی تحریریں ان کی اردو سے لگن کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔ اسی روز کراچی میں خدمت خلق میں سالہا سال سے مصروف جناب شکیل دہلوی بھی مختصر سی علالت کے بعد اللہ تعالی کے حضور حاضر ہو گئے۔ عالمگیر ٹرسٹ جیسے معتبر ادارے سے ان کی غریبوں ناداروں کیلئے مہربانیاں کراچی کے ادبی صحافتی حلقوں میں سب کو معلوم ہیں۔ کسی بھی مستحق کیلئے ان سے رابطہ کیا جاتا مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ بہت صاحب مطالعہ 'اہل قلم سے، اخبار نویسوں سے مسلسل رابطہ ۔رمضان المبارک 'عید الفطر، عید الاضحی اور دوسرے مواقع پر غریبوں کیلئے راشن، گوشت کیلئے کارڈ بھیج دیتے۔ گھریلو ملازمین ،ماسیاں وقت مقررہ پر پہنچ جاتیں۔ بہت مطمئن واپس آتیں۔ خدائے بزرگ و برتر انہیں جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔
اب آتے ہیںآج کے موضوع پر ’’دنیا نظریات سے خالی ہوتی جا رہی ہے‘‘ اس کے اسباب کیا ہیں یہ تو ہمارے فاضل محققین، پروفیسرز بتا سکتے ہیں۔ادبی کانفرنسیں........
© Daily Jang
