محمد خالد وسیم
حکومتی مشینری کی صبح وشام گردان نے کان پکا دیئے ہیںکہ اقتصادی اشاریے بہتر ہو گئے ہیںاور مہنگائی میں کمی واقع ہو ئی ہے۔اس میں شک نہیں کہ شرح سو د میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور تیس فیصد سالانہ سے شرح سود کم ہو کر بارہ فیصد سالانہ تک آگئی ہے مگر اس کے ساتھ یہ دعو ے کرنا کہ مہنگائی میں کمی واقع ہو گئی ہے، بے معنی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی رفتار ضرور کم ہوئی ہے مگر مہنگائی میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی رفتار ایک علیحدہ چیز ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ مہنگائی کس طرح بڑھ رہی ہے۔مگر مہنگائی کم ہونا دوسرا پہلوہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیزوں کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو ئی ہے جو بظا ہرنظر نہیںآتا۔ مہنگائی کو قابو کرنا خالصتاً ایڈمنسٹریشن کا معاملہ ہے جس میں ذخیرہ اندوزی ، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ کا تدارک کیا جاتا ہے۔ یہ تمام معاملات گڈ گورننس میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں گڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ اسلام کے سب سے متبرک ماہ رمضان میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ جس کیلئے ذخیرہ اندوز مافیاز باقاعدہ منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حکومتی مشینری کے پاس اسکا کوئی توڑ نہیں۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا میکانزم موجودہی نہیں ہے۔ نہ ڈیمانڈ اینڈ سپلا ئی کو دیکھا جاتا ہے اور نہ گزشتہ ماہ کی قیمتوں کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے۔
ایک نظر فروٹ کی قیمتوں پر ڈالیں تو گزشتہ ماہ کیلاایک سو روپے سے ایک سو پچاس روپے فی درجن تھا۔ اب رمضان المبارک میں تین سو روپے فی درجن فروخت ہو رہا ہے۔ سیب کی قیمت گزشتہ ماہ دو سو روپے سے اڑھائی سو روپے فی کلو تھی جو رمضان المبارک کے مہینے میں ساڑھے تین سو روپے سے چار سو روپے کے درمیان فروخت ہو رہا ہے۔ امرود ڈیڑھ سو روپے سے دو سو روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا جو رمضان کے مہینے میں تین سو روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ ان پھلوں کی پیداوار میں کمی نہیں ہوئی مگر ا ن کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے کیونکہ فروخت کنندہ پر کوئی چیک نہیں۔ وہ منہ مانگی قیمتیں........
© Daily Jang
