افضال ریحان
’’پوٹن ایک قاتل ہیں تو کیا ہوا، بہت سے لوگ قاتل ہیں، ہمارے ملک میں بھی بہت سے قاتل ہیں، امریکا خود کون سا معصوم ہے‘‘ جی ہاں یہ الفاظ کسی اور کے نہیں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہیں جو انھوں نے اپنی پہلی جیت کے فوری بعد ادا کیے تھے اور اس مرتبہ اپنی دوبارہ جیت کے بعد وہ اپنے قریبی یورپین اتحادیوں کے متعلق پیہم جو لب و لہجہ اپنائے ہوئے ہیں اسے سامنے رکھتے ہوئے ان کے متعلق بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم یہاں ایک جملہ نہیں ایک نقطہ معترضہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو لفظ ’’سیاست‘‘ سے شروع ہوتا ہے دیگر ممالک میں اس لفظ ’’پولیٹیکس‘‘کے حوالے سے جو نقطہ نظر بھی پایا جاتا ہے، ہمارے تضادستان میں اسے کوئی زیادہ بہتر اسلوب میں پیش نہیں کیا جاتا وجوہ اسکی جو بھی ہیں ہمارا سماج اور ہمارا میڈیا اس لفظ کو چالاکی و عیاری کے معنوں میں پیش کرتا ہے۔ لغوی طور پر اگرچہ یہ فنِ حکمرانی یا رموز جہاں بانی کے طور پر ہو سکتا ہے مراد یہ کہ ’’سیاست‘‘ قوم یا افرادِ قوم کو سمجھداری و ذہانت سے آگے بڑھانے یا معاملہ کرنے کا نام ہے جس کیلئے موٹی عقل والوں کی نہیں باریک بین یا کم از کم ایسے خواص کی ضرورت ہوتی ہے جو عصری تقاضوں کی مناسبت سے اپنے عوام کی نفسیات کو سمجھتے ہوں ،انہیں آگے لے جانے کا داعیہ ہی نہیں شعور بھی رکھتے ہوں ۔ ہمارے ملک کا تو خیر باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں عامتہ الناس کے اذہان میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پروپیگنڈا انڈیلا جاتا ہے کہ گویا سیاست کوئی بہت ہی بری چیز ہے یہ چالاکی و مکاری ہی نہیں دھوکہ دہی کا دوسرا نام ہے یہ پروپیگنڈا پوری طاقت سے پھیلانے میں کس کا ہاتھ ہے ہم اس پر اظہارِ خیال سے قاصر ہیں۔
حالیہ امریکی انتخابات سے قبل ہم نے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے مشہور بھارتی فلم ’’تھری........
© Daily Jang
