عطا ء الحق قاسمی
تنقید و تحقیق سے مجھے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔خود پر تنقید تو میں خیر برداشت نہیں کر سکتا البتہ دوسروں پر تنقید میں اپنا ہی مزا ہے اور جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کا ایک پہلو مجھے بہت پسند ہے مثلاً یہ کہ میں تحقیق کرتا ہوں فلاح شخص بیس پچیس برسوں میں ’’یکایک‘‘ امیر کیسے ہو گیا اس طرح کے اور بہت سے مسائل ہیں جن پر غوروخوض کیلئے ہم دوست ہفتے میں ایک بار اکٹھے ہوتے ہیں اور ایسے ایسے لوگوں کی ’’پت‘‘ اتارتے ہیں جنہیں معاشرے نے بہت معزز سمجھا ہوا ہے اور انہیں ہر معاملے میں کلین چٹ دی ہوئی ہے۔ اس محفل میں ہر دوست ،اہل محلہ، اہل شہر بلکہ پاکستان بھر کے ممتاز افراد کے حوالے سے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتا ہے اور ہم میں سے ہر کوئی یہ سن کر شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور بات بات پر کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے حتیٰ کہ اپنے قریب ترین دوستوں،جن کے ساتھ عمر کا ایک طویل حصہ گزرا ہوتا ہے، کے حوالے سے ایسی ایسی گھٹیا باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ہم آج تک انہیں بھلے مانس ہی سمجھتے رہے۔ ان سے بھی زیادہ وہ باتیں رونگٹے کھڑے کرنے والی ہوتی ہیں جو علاقے کی شریف بیبیوں کے بارےمیں کی جاتی ہیں مگر چونکہ میرے دوستوں کا یہ حلقہ بہرحال وضعدار لوگوں پر مشتمل ہے چنانچہ ان کے حوالے سے گفتگو احتیاط سے کرتے ہیں ۔ گزشتہ میٹنگ میں ایک دوست نے بتایا کہ کل وہ گلی سے گزر رہا تھا کہ سامنے سے آنے والی ایک بہت خوبصورت لڑکی نے میرا راستہ روک لیا یہ مجھے خط بھی لکھا کرتی ہے اور کئی دفعہ باہر کہیں ملنے کا بھی کہہ چکی ہے اب وہ رستے میں ملی تو باہر کہیں چلنے پر اصرار کرتی رہی میں نے بہت مشکل سے اپنی جان چھڑائی سب نے اصرار کیا کہ وہ بتائے یہ لڑکی کون ہے مگر اس نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مزید کچھ بتائو ں،آخر ہم بھی دھی بہنوں والے ہیں البتہ صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ گلی میں سرخ اینٹوں سے بنا ہوا جو سب سے خوبصورت مکان ہے جہاں ایک بہت معزز سید گھرانہ رہتا ہے میں نے اسے وہیں سے آتے........
© Daily Jang
visit website