عطا ء الحق قاسمی
کچھ عرصہ پہلے تک میری روٹین تھی کہ دفتر جاتے ہوئےکار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھنے میں مشغول رہتا مگر اب میری روٹین بدل گئی ہے اور اب میں سڑک پر ’’بکھرے‘‘ لوگوں اور جانوروں کو پڑھتا ہوںایک دن مجھے دور سے ایک جانور نظر آیا جس کی شکل گدھے سے ملتی جلتی تھی قریب جا کر دیکھا تو وہ گدھا ہی تھا۔ گدھا ہر دو صورتوں میں بہرحال گدھا ہی نکلتا ہے۔ وہ شاید گدھے کا مالک تھا یا کوئی راہگیر جو اس گدھے کی وجہ سے جو عین سڑک میں دھرنا دیئے ہوئے تھاجام ہوئی ٹریفک کھولنا چاہتا تھاوہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ گدھے کا مالک تھا کیونکہ کچھ ہی دورگدھا گاڑی کھڑی تھی جس پر منوں کے حساب سے لدا سامان سڑک پر بکھرا پڑا تھا۔دوسری طرف کاروں، بسوں اور موٹر سائیکل والوں کے ہارن سے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے تھے۔ تاہم یہ سوچ کر لطف بھی آ رہا تھا کہ گدھے پر اس کی ہمت اور کپیسٹی سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جائے تو وہ پبلک کے لئے تو عذاب بنتا ہی ہے۔مالک کو بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا کیونکہ اب لوگ گدھے سے زیادہ اس کے مالک کو غصیلی نظروں سے دیکھ رہے تھے معاملہ بہت سنگین ہو گیا تو میں اپنی کار سے نکلا کیونکہ ایک بزرگ نے جو جانوروں کی زبان سمجھتے تھے اور ان سے سوال جواب بھی کرتے تھے میری عقیدت اور ان کی والہانہ خدمت کے صلے میں انہوں نےمجھے بھی اس علم کا ایک حصہ عطا کردیا تھا۔ میں گدھے کے قریب گیا گدھے نے پہلے تو غصیلی نظروں سے مجھے دیکھا مگر پھر اچانک اس کی آنکھوں میں خوشی کی ایک چمک سی آئی۔ میری روحانی تربیت میرے کام آگئی تھی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہی اسے پتہ چل گیا تھا کہ اس کا دکھ درد سمجھنے والا شخص آن پہنچا ہے میں نے اس کے کان میں کہا ’’برادر، خلق خدا تنگ ہورہی ہے، تم اب اٹھ جائو اور سڑک کے کنارے آ کر میری بات سنو‘‘ وہ برق رفتاری سے اپنی جگہ سے اٹھا، اس کی خوشی کا اندازہ مجھ کو ہی ہو رہا تھا اور وہ........
© Daily Jang
visit website