حفیظ اللہ نیازی
مریم نواز کیلئے مقامِ وزیراعلیٰ ایک رہ گزر یا انکا آخری سیاسی پڑاؤ ، آنے والے دنوں نے تعین کرنا ہے۔ وطنی سیاست میں ، مریم نوازبلاول بھٹو نووارد ہی کہلائیں گے۔ بینظیر کی ناگہانی موت کے بعد بلاول کی تاج پوشی ضرور ہوئی ، عملی سیاست سال بعد شروع کی ۔ سیاسی ڈاکٹر صدر زرداری نے بنفس نفیس اتالیق ، قدم بہ قدم تربیت جاری رکھی ہے ۔ بھر پور عملی سیاست ، 2018 کی انتخابی مہم سے ہوئی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی سندھ میں اکثریتی پارٹی تھی ۔ ڈاکٹر زرداری کی دوربینی باریک بینی ، بلاول کو صوبہ سندھ کاوزیراعلیٰ نہیں بنایا ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کو ترجیح دی ۔ بلاول کی اسمبلی میں پہلی تقریر اپوزیشن کی طرف سے سب سے موثر تھی ۔ بلاول کا برجستہ ، " سلیکٹڈ وزیراعظم " کہنا، تقریروں کا میلا لوٹ لیا ۔ آج زبان زدِ عام ہے ۔ ڈاکٹر زرداری نے کسی لمحہ نہ سوچا بلاول کو سندھ تک محدود رکھنا ہے ۔ قومی ملکی سیاست میں جتنی SPACE میسر اسکو استعمال کرنے کی ٹھانی ۔ الیکشن 2024 میں بلاول بھٹو کی ملک گیر انتخابی مہم نے انکی سیاست کو مزید چمکا دیا ۔ بخوبی معلوم پنجاب میں خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملنی ، پھر بھی بھرپور انتخابی جلسے کئے، لاہور سے الیکشن لڑ کر آنے والے سالوں کے اپنے عزائم آشکار کئے۔ بلاشبہ وطنی سیاست میں بلاول ایک اچھا اضافہ ہے۔
مریم نواز کی سیاست میں آمد بلاول کے کچھ سال بعد سہی ، کم و بیش ایک ہی وقت کہلائے گا ۔ 2013 میں نواز شریف وزیراعظم بنے تو پہلی دفعہ مریم نواز کا نام سیاسی منظر نامہ پر سُننے کو ملا ۔ اُڑتی خبر ، وزیراعظم ہاؤس میں ایک میڈیا سیل ہے جو مریم نواز کے رحم وکرم پر ہے ۔ مریم اورنگزیب ، دانیال عزیز ، طلال چوہدری ، جاوید لطیف ، مصدق ملک جیسے جید پر مشتمل ایک گروپ قومی سطح پر بذریعہ میڈیا متعارف ہوا ۔ بعدازاںیہی لوگ مسلم لیگ ن کی مزاحمتی اور اصولی سیاست کا استعارہ بنے ۔ برادرم پرویز رشید کی رہنمائی یقینا ہمہ وقت میسرتھی ۔ 2016 میں پانامہ کیس سے مریم نواز کو نتھی رکھنے کا فیصلہ ہوا تو تجسس ، اسٹیبلشمنٹ کو مریم نواز سے کیا خطرہ لاحق ہے ؟ اسٹیبلشمنٹ ہر صورت مریم نواز کو ٹارگٹ کرنے کی ٹھان چکی تھی ۔ بلاول سیاست کے برعکس ، مریم نواز کو اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے صف اول کے قائدین کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا........
© Daily Jang
visit website