ندیم اختر ندیم
ایک طرف جموں کشمیر کے پہاڑوں اور آزاد کشمیر کی بالائی وادیوں پر برف جمی ہے، اس پر ہوائیں ان کی یخ بستگیاں یہاں تک لے آئی ہیں۔ ایک تو موسم ہی سرد ہے دوسرے پہاڑوں نے بھی ہواؤں سے نہ جانے کیا ساز باز کرلی ہے۔ موسم سرد ہے وہ بھی خشک، گویا ماحول میں خنکی اور خشکی ہے اور سیاسی ماحول بھی سرد مہری سے اٹا ہوا ہے اس سردی میں امیدواروں کے مزاج کی خشکی بھی شامل رہی ۔
سیاست تو کسی اصول ضابطے اور قاعدے کی پابند ہوتی ہے جس میں اپنے انتخاب کےلئے لوگوں کو قائل اور مائل تو کرتے ہیں لیکن یہ کیا کہ آپ دوسروں کو قابل تعزیر ہی سمجھ لیں۔ شاید ہمارے سیاستدان اصول سیاست سے نابلد ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کو عوام کے سامنے کسی معاشرتی اور اجرتی قاتل کے طور پر پیش کرتاہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ سیاستدان اپنے انتخابی جلسوں میں اپنی خدمات گنوائیں نہ کہ دوسروں پر لفظی محاذ کھول دیں ، یہاںیہی چلن رہا ہے کہ آپ اقتدار کیلئے تو دوسروں کا ہر ستم بھلا کر ایک ہو جائیں لیکن انتخابی موسم آتے ہی اپنے اسی اتحادی کو الزامات کی گہری کھائیوں میں پھینک دینا چاہیں اور چاہیں کہ صرف آپ ہی ’’چندا ماموں‘‘ ہوں اور باقی سب انگارے جو سب کا مستقبل جلا کر راکھ کردینگے
۔ ہم تاریخ میںبڑی سیاسی شخصیات کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بلندبانگ دعووں کی بجائے عمل کو ترجیح دی اور اپنے عملی اقدامات سے نہ صرف ملک کی خدمت کی بلکہ تاریخ میں اہم جگہ پائی لیکن پاکستان میں یہ چلن عام ہو چلا ہے کہ کیجئے کچھ بھی نہ، بس شور مچائیے اوراتنا شور مچائیے کہ عوام کی آوازیں اس شور میں دب کررہ جائیں۔دیکھئے صاحب! پاکستان کب آزاد ہوا؟ اور سوچئے کہ ان سے کم برسوں میں اگر چائنہ نے ترقی کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے تو ہم ایسا کیوں نہ کر سکے؟چائنہ کے نہ صرف حکمران بلکہ عوام نے بھی جب اپنے ملک کے........
© Daily Jang
visit website