menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

سڑکوں پر موت: حفاظتی معیارات جو کبھی نافذ نہ ہوئے

8 0
31.05.2025

اسلام آباد کے ایوانِ زیریں کے سائے تلے، جہاں ہوا بیوروکریسی کے بوجھ اور ناکام وعدوں کے بھوتوں سے بھری ہوئی ہے‘28 مئی 2025 ءکو ایک اجلاس ہوا جس نے ایک ایسی حقیقت کو بے نقاب کیا جو کراچی کے ناگن چورنگی پر فروری 2024ءکے حادثے کے ملبے جتنی کھردری تھی‘بریکس فیل، رفتار بے قابو، جانیں ضائع۔ قومی اسمبلی کی صنعت و پیداوار کی اسٹینڈنگ کمیٹی، جس کی صدارت سید حفیظ الدین کر رہے تھے‘ یہ ایک ایسے شخص ہیں جن کی پیشانی پر قوم کے بوجھ کی لکیریں واضح تھیں ‘کمیٹی ایک ایسے کمرے میں بیٹھی تھی جہاں پرانی لکڑی اور اس سے بھی پرانی خواہشوں کی خوشبو سونگھی جا سکتی تھی۔ وہ یہاں ایک ایسی حقیقت کا سامنا کرنے آئے تھے جو دریافت سے زیادہ ایک اعتراف لگتی تھی‘ پاکستان کی آٹو انڈسٹری‘200 عالمی حفاظتی معیارات میں سے صرف 18پر عمل کر رہی ہے، باقی 182 کو مکمل طور پر نظر انداز کئے ہوئے ہے، جبکہ گاڑیوں کی قیمتیں عالمی اعتبار سے کہیں زیادہ ہیں۔حفیظ الدین کی آواز جو برسوں کی سیاسی چال بازی سے کندہ ہو چکی تھی، کمرے کی بھاری ہوا کو چیرتی ہوئی سنائی دی”پاکستان میں بڑے پیمانے پر ٹریفک حادثات ہو رہے ہیں“ انہوں نے کہا، ان کے الفاظ ایک خاموش الزام کی طرح تھے۔”گاڑی ساز کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حفاظتی معیارات کو نافذ کریں“انہوں نے بھارت اور چین کا ذکر کیا، وہ ہمسایہ ممالک جنہوں نے اپنی آٹو انڈسٹری کو عالمی سطح پر ایک طاقت بنا دیا، گاڑیاں برآمد کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی گاڑیاں عالمی منڈی کے لئے ناکارہ ہیں۔ یہ ناکامی خواہش کی نہیں، عمل کی ہے۔ سیکرٹری صنعت و پیداوار‘ ایک بیوروکریٹ نے ایک کمزور دفاع پیش کیا‘ دو ایئر بیگز اب بھی معیاری ہیں‘ دو ایئر بیگز، گویا یہ........

© Daily AAJ