شہزادی درشہوار
خلافت عثمانیہ کی سب سے آخری نسل کی شہزادی کی زندگی کا حال بڑا عجیب اور ایک طرح سے اداس کر دینے والا ہے سلطنت عثمانیہ تین براعظموں کے مالک سیاہ و سفید کے فیصلے کرنے والے جن کی کنیزوں کی بھی کوئی گرد تک نہیں پہنچ سکتا تھا کجا کہ ان کے گھر کی شہزادیاں اور ملکائیں حرم سے باہر آجائیں لیکن جب دوسری جنگ عظیم میں ترکیہ پر یو رپ بھر کی اقوام نے جس طرح یلغار کی اس میں خلافت عثمانیہ صرف ترکیہ کو ہی بچاسکی طوائف الملوکی نے ان کو اس حد تک کمزور کر دیا تھا کہ ان کے ہاتھ سے خلافت کیا چھنی تینوں براعظم بھی ان کی ملکیت سے نکل گئے ترکیہ کو بچانے کے لئے لاکھوں نوجوان طلباء نے شہادت کا رتبہ پایا یورپ نے خلافت کو ختم کرنے کی شرط پر ترکیہ کو کمال اتا ترک کو سپرد کر دیا ترکیہ کے لوگوں میں خلافت اور شاہی خاندان کی محبت اور تکریم اس قدر رچی بسی تھی کہ کمال اتاترک کو آخری عثمانیہ خلیفہکے خلاف کار وائی مہنگی پڑ سکتی تھی‘شروع کے برسوں میں ان کو تاج و تخت سے الگ کرکے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر دینے پر مجبور کر دیا گیا لیکن 1924ء میں پورے شاہی خاندان کو زبردستی جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا گیا‘ تقریباً 200لوگ تھے جن کو بے یارومدد گار بحری جہازوں میں بٹھا دیا گیا عبدالمجید دوئم اس وقت ان سب بے آسرا خاندان کے کفیل بنے‘انہوں نے فرانس میں پناہ لی فرانس کے شہر نیس (Nice) میں ٹھہرنا بہت مہنگا تھا ان کے وسائل ختم ہو گئے تھے برٹس ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے دنیا بھر کے مسلمان رہنماؤں سے ان کی مالی مدد کیلئے اپیل کر دی شہزادی درشہوار عبدالمجید دوئم کی صاحبزادی تھی وہ 1914ء فروری میں استنبول میں پیدا ہوئی تھی جب وہ جلا وطن کر دیئے گئے تو اس کی عمر صرف دس سال تھی وہ........
© Daily AAJ
