ایک ہی تجربہ دہرانے کا عمل
بدقسمتی سے ملکی سیاست میں سیاسی مکالمہ پر اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی یا پھر دما دم مست قلندر ترجیحی رحجان اور اس پر عملدرآمد سیاسی گرداب یا پھر مقدمات سے چھٹکارے کا نسخہ سمجھ لیاگیا ہے ۔ بنگلہ دیش طرز کے انقلاب سے متاثر ذہنوں کے اندازے کی غلطی یہ نظر آتی ہے کہ ان کی زمینی حقائق پر نظر نہیں پھر بھی اگر اسے پرکھنا ہی تھا تو نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے واقعے پر ہونے والا احتجاج وہ موقع تھا کہ اس کا رخ شاہوں کے محلات کی طرف ہونے سے دما دم مست قلندر کے منتظرین کی آس پوری ہونے کا موقع تھا مگرایسا کچھ نہیں ہوا جس کے بعد اندازہ لگانے والوں کو نہ خنجر اٹھے گا نہ تلواریہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں کے تاثر تک پہنچنے میں آسانی ہوتی۔ وطن عزیز میں تحریک سے قبل ہوم ورک کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے بھی راہ و رسم ہونے کا رواج رہا ہے نیز کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے پہلے وقتوں میں کراچی اور بعد کے وقتوں میں لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے تحریک انصاف کو قبل ازیں خیبر پختونخوا اور تخت لاہور کی حکمرانی کے طاقت پر” ستائیس کلو میٹر کی” کی وفاقی حکومت سے ٹکرائو کا تجربہ ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا سے بار بار فیض........
© Mashriq
visit website