menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

محمد مہدی

17 11
06.11.2025

ساؤتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام جنوبی ایشیا کے انتظامی و سیاسی امور کس طرف کا سفر اختیار کررہے ہیں پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ اس وقت دنیا بھر میں نظریاتی تحاریک کی اٹھان کا معاملہ بہت کمزور پڑ چکا ہے اور جنوبی ایشیا میں یہ صورتحال نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتی ہے ۔ بنگلہ دیش میں طلبہ کی جانب سے گزشتہ برس حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ دینا کسی باقاعدہ نظریاتی تحریک کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ بنگلہ دیش میں بڑھتی بیروز گاری اور حسینہ واجد کا مکمل طور پر آمرانہ طرز عمل اس ساری صورت حال کا موجب بنا ۔ حسینہ واجد ایک سیاسی جماعت کی سربراہ ہونے کے باوجود خالص طور پر ایک آمر کا روپ دھار چکی تھیں ۔ وہ گڑے مردے اکھیڑ کر زندوں کو دفن کرنے میں منہمک تھیں اس بات سے بے خبر کہ بہت دیر تک عوام کو صرف نعروں یا ماضی کے قصوں سے نہیںبہلایا جا سکتا ۔ اس سبب سے وہ اقتدار سے بے دخل ہوئیں مگر اس سے یہ تصور کرلینا کہ ان کی سیاسی حمایت بنگلہ دیش میںماضی کا حصہ بن کر رہ گئی، درست تجزیہ نہیں ہوگا اور اسکے ساتھ یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ کسی قسم کی باقاعدہ نظریاتی سوچ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس تحریک کے کوئی خاص اثرات جنوبی ایشیا کے ممالک بشمول پاکستان پر مرتب نہیں ہوئے اور نہ ہی ہونے کے امکانات موجود ہیں ۔ ہال میں موجود طلبہ کے اس سوال کہ اب انڈیا پاکستان سے کیوں بات چیت نہیں کر رہا ہے جبکہ ماضی میں یہ مشق کئی بار کی گئی؟ عرض کیا کہ 1999 ءکے وقت تک انڈیا اور پاکستان کی معیشتوں میں بہت زیادہ فرق نہیں تھا مگر 1999 ءکے بعد یہ فرق بتدريج بڑھتا چلا گیا اور اس فرق کے اثرات کے سبب پاکستان کی عالمی برادری میں بھی اہمیت میں کمی محسوس ہوئی جبکہ انڈیا جگہ جگہ اپنے پنجے گاڑتا ہوا نظر آیا اور اس صورت حال نے انڈیا میں احساس برتری کو بہت مضبوط کردیا اور وہ بات چیت کی ضرورت سے اپنے آپ کو ماورا........

© Daily Jang