حامد میر
یہ 2018ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صحافیوں کے ایک گروپ کو نیشنل سکیورٹی پر بریفنگ کیلئے بلایا اور گفتگو کے دوران کہنے لگے کہ مجھے سب پتہ ہے کہ لیٹ نائٹ آپ کی کیا سرگرمیاں ہیں؟ یہ سن کر وہاں موجود کچھ صحافیوں نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر ایک ساتھی نے یہ کہہ کر بات گول کر دی کہ ان سرگرمیوں کا نیشنل سکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ تھوڑی دیر بعد باجوہ صاحب نے اپنی انگلی کا رخ میری طرف کیا اور کہا کہ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کن کن غیر ملکی سفیروں کو ملتے ہیں۔ یہ سن کر میں مسکرایا اور فوراً جواب میں کہا کہ جناب ہم انہی سفیروں کو ملتے ہیں جن کو آپ بھی ملتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ آپ انہیں ملاقات کی دعوت خود دیتے ہیں اور ہم ان سے انکی دعوت پر ملتے ہیں۔ باجوہ صاحب کو اس قسم کے جواب سننے کی عادت نہ تھی۔ انہوں نے پینترا بدلا اور کہا کہ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کتنی کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ پھر خود ہی لقمہ دیا اور کہا کہ آپ کی تنخواہ تو میرے سے بھی زیادہ ہے۔ میں نے بولنے کیلئے زبان کھولی تو باجوہ نے کہا ہاں ہاں آپ کہیں گے کہ میری مراعات بہت زیادہ ہیں۔ ملازم بہت زیادہ ہیں لیکن تنخواہ تو آپ کی زیادہ ہے۔ ایک ساتھی نے بڑے احترام سے عرض کیا کہ سر جی! ہم میں سے ہر کسی نے بیس سال یا تیس سال پہلے میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھا۔ جس طرح آپ کیپٹن سے جنرل بن گئے ہیں اور آپ کی تنخواہ بڑھ گئی ہے تو ہماری بھی بیس تیس سال میں تنخواہ بڑھ گئی ہے اور اکثر ٹی وی اینکرز کی تنخواہ ان کے شو کی ریٹنگ کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ زیادہ ریٹنگ والے شوز پورے چینل کو کما کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر باجوہ صاحب کو جواب پسند نہ آیا اور انہوں نے موضوع بدل دیا لیکن ایک دل جلے ساتھی نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ جنرل........
© Daily Jang
visit website