مظہر عباس
یہ تو پتا نہیں کہ الیکشن۔2024کسی بیانیہ کی شکست ہے مگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ’جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے‘ اب یہ الگ بات ہے کہ آپ اس مینڈیٹ کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان انتخاب میں نہیں تھے وہ اڈیالہ جیل میں تھے مگر نواز شریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، ایمل ولی اور خالد مقبول میدان میں تھے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت آنی تھی میاں صاحب کو چوتھی بار وزیر اعظم بنناتھا کم ازکم سادہ اکثریت کی یقین دہانی تھی، ایم کیو ایم کو2013جتنی سیٹیں دینا تھیں مگر ان ’ شرارتی نوجوانوں‘ نے بازی پلٹ کررکھ دی۔ کئی ایک کا خیال تھا کہ ’بلے‘ کا انتخابی نشان نہ ملنے کے بعد بائیکاٹ کی کال آئے گی اور کھیل آسان ہوجائے گا مگر پھریوں ہوا کہ سلیکٹرز بھی دیکھتے رہ گئے اور جنہیں ‘ سلیکٹ‘ ہونا تھا وہ بھی ۔
اب اس بات کو ہضم کرنا کچھ ہمارے دوستوں کیلئے مشکل ہے مگر اس غیر معمولی الیکشن نے ایک بات ثابت کردی کہ پاکستان تحریک انصاف ایک مضبوط سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور سیاسی فیصلوں سے منوایا بھی مگر کل تک جن کو ’ممی ڈیڈی،مغرب زدہ خواتین اور بگڑے ہوئے نوجوان‘ جیسے القاب سے نوازا گیا انہوں نے ووٹ کو عزت ‘ بھی دلوائی اور جمہوریت کے ذریعے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا انتقام بھی لیا۔ کون سا ایسا حربہ ہے جو نہ استعمال ہوا؟ آخر میں پولنگ کے دن انٹر نیٹ اور موبائل بند پھربھی ’بیلٹ باکس‘ بھر گئے جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں شاید دودن لگ گئے۔
اب جھگڑا ہے ’ کرسی‘ کا مگر ان شرارتی نوجوانوں کی جمہوری شرارتوں کی وجہ سے میاں نواز شریف وزرات عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہوگئے اور چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا نہ ہی بلاول بھٹو وزیر اعظم بن پائے۔ خیر اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ ’ کرسی‘ ایک ہے امیدوار کئی اور سب لاڈلے بننے کو تیار۔ ایسے میں خطرہ یہی ہے کہ کہیں اتنی مضبوط کرسی ٹوٹ گئی تو بننے میں برسوں لگ سکتے ہیں ’ عبوری‘ تو ویسے ہی تیار بیٹھے ہیں مستقل ہونےکیلئے ۔
اس الیکشن کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے جلسے، جلوس روکے تو نوجوانوں نے آن لائن جلسے شروع کردئیے۔ زوم ، ٹک ٹاک، انسٹا گرام،........
© Daily Jang
visit website