لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے
عجیب گھڑ مس مچی ہوئی ہے پشتو زبان کی ایک کہاوت یاد آگئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”جس بلا یعنی عفریت سے سامنا کرنے میں ابھی پوری رات کا وقت پڑا ہو اس سے گھبرانا نہیں چاہئے ” تحریک انصاف کے بانی کی جانب سے اپنی گرفتاری کے حوالے سے پارٹی کو احتجاج کرنے کے لئے پانچ اگست کی تاریخ دی گئی ہے کیونکہ ان کی گرفتاری کو پانچ اگست کو دو سال پورے ہو جائیں گے مگر اس حوالے سے گزشتہ روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے ایک اہم رہنما وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی ا مین گنڈہ پور نے جہاں ایک بار پھر ”اب آر یا پار” اور تحریک گلی گلی کوچہ کوچہ جائے گی کا نعرہ مستانہ لگایا وہاں حکومت کو الٹی میٹم دیا ہے کہ ”90روز میں پارٹی کے بانی کو رہا کرو ورنہ یا ہم نہیں یا تم نہیں” مگر اس پر حکومتی حلقوں کی جانب سے جو ہلکے پھلکے تبصرے ہوئے ہیں ان سے قطع نظر خود تحریک انصاف کی جانب سے جن خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ یقینا قابل غور کے زمرے میں آتے ہیں اور تو اور خود پارٹی کی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے سوال اٹھایا ہے کہ پانچ اگست کے مقابلے میں نوے دن کا پلان کہاں سے آیا؟ تحریک کہاں سے اور کیسے چلے گی؟ اور ہم نے کالم کے آغاز میں جس پشتو کہاوت کا تذکرہ کیا ہے یہ صورتحال اسی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ نوے روز تک ”احتجاج” موخر کرتے ہوئے بانی کی ہدایات کو مبینہ طور پر پس پشت ڈالنا اپنی جگہ جواز جو بھی ہو کم از کم سرکار والا مدار کے لئے وہی بلا سے ملاقات میں رات بھر کا وقت” ضرور بن رہا ہے اس کے بعد بقول مرزا غالب کون جیتا ہے ترے زلف کے سر ہونے تک والی صورتحال خود بخود بن جاتی ہے ۔
یعنی 90 روز کے ”الٹی میٹم” کا بیانیہ بنانے والے نے اتنی طویل مہلت دے کر واضح کر دیا ہے کہ
زباں میری ہے بات ان کی
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں
وہ جو ہم نے گھڑ مس مچنے کی بات کی اوپر کے سطور میں........
© Mashriq
