مصطفیٰ زیدی کی پُراسرار موت کا معما جو نصف صدی گزر جانے کے باوجود حل نہ ہوسکا
تقریباً ایک دہائی قبل جب ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال اتنا زیادہ عام نہیں تھا تب ’سیریل‘ نامی پوڈکاسٹ نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑا تھا۔
یہ ایک تحقیقاتی پوڈکاسٹ تھی جس کی شروعات 18 سالہ امریکی ہائی اسکول کی طالبہ کے قتل کی روداد سے ہوئی اور جیسے جیسے اقساط آتی گئیں تو سامعین کو اس مقدمے کی تحقیقات اور ٹرائل کی کارروائی سے متعلق بتایا گیا۔ اس لڑکی کے بوائے فرینڈ کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ پوڈکاسٹ میں لڑکی کے قتل کے مقدمے پر تفصیل سے بات کی گئی جس میں متعدد سوالات کھڑے ہوئے جبکہ استغاثہ کی خامیوں کی بھی نشاندہی کی گئی جس نے نوجوان لڑکے کو سزا سنائی تھی۔
یہ پوڈکاسٹ فوری طور پر مقبول ہوگئی۔ دو سال کے عرصے میں اس پوڈکاسٹ کو 8 کروڑ بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا جبکہ اس نے حقیقی کرائم ڈاکیومینٹری کا ایک ٹرینڈ سیٹ کیا جو اب بھی چل رہا ہے۔ اس کے بعد سے نہ صرف پوڈکاسٹ بلکہ متعدد ’اونلی مرڈرز ان دی بلڈنگ‘ جیسی ٹی وی سیریز بھی نشر ہوئیں جبکہ کچھ کتابیں بھی شائع ہوئیں جن میں اسی طرح قتل کے پُراسرار واقعے کی تحقیقات کی گئیں۔ مثال کے طور پر کتاب ’اے گُڈ گرلز گائیڈ ٹو مرڈر‘ (حال ہی میں اس کتاب پر مبنی نیٹ فلیکس سیریز بھی ریلیز ہوئی ہے) واضح طور پر صرف تحقیقاتی صحافت سے نہیں بلکہ یہ کسی حقیقی واقعے سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی صحافت میں سیاسی معاملات سے ہٹ کر کسی اور معاملے پر توجہ دینے کا شاذ و نادر ہی وقت مل پاتا ہے جبکہ جرائم کو اس ملک کے بڑے منظرنامے میں اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔
اخبارات ہوں یا ٹیلی ویژن، جرائم سے متعلق خبروں کو صفِ اول کی ہیڈلائنز یا اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ نہیں دی جاتی جبکہ جرائم کے واقعات کی تفصیل سے رپورٹنگ یا کوریج بھی نہیں ہوتی۔
لیکن حال ہی میں دو خاتون صحافیوں........
© Dawn News TV
