کراچی: صدیوں کی کتھا! (پچیسویں قسط)
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ہمارے اطراف میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں آپ کو لوگ بے بسی اور بے کسی کی صورت حال میں دیکھنے کو ملیں گے۔ وہ ایسے مقامات پر زندگی کے سفر سے تھک کر، مایوس اور پریشان ہوکر سکون کی تلاش میں پہنچ جاتے ہیں۔
ایک دفعہ جب میں جون کی تپتی دوپہر میں حیدرآباد سے سانگھڑ جاتے ہوئے اُڈیرو لال کے آستان پر گیا تھا جہاں ہندو اور مسلمان دونوں اس آستان پر عقیدت سے آتے ہیں۔ گزشتہ قسط میں جو پیلو کے درخت کی تصویر آپ نے دیکھی تھی وہ اُس جگہ کی ہے۔ آپ وہاں چلے جائیں جہاں پیلو کو چینی دینے والے پیلو کے نام سے بھی جانتے ہیں کیونکہ اُس گھنے اور وسیع پیلو کے درخت پر سفید پاؤڈر کی تہہ جمتی ہے۔ اُسے چکھو تو معمولی سی مٹھاس محسوس ہوتی ہے۔
اس درخت پر اپنی ناکام تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے یہ رنگین کپڑوں کے ٹکڑے اور ہاتھ سے رنگین کپڑوں کی بنائی تکونی تھیلی جس کے اندر کبھی کپاس یا کچھ اور ٹھونس کر پُھلا دیا جاتا ہے، مقامی اسے ’چَتوں‘ (طوطا) کہتے ہیں۔ یہ آپ کو تقریباً ہر ایسے مقام پر لٹکتے ہوئے ملیں گے۔
اُڈیرو لال میں پیلو کا درخت جس پر خواہشات کی تکمیل کے لیے رنگین کپڑے اور چتوں باندھے جاتے ہیں—تصویر: لکھاریوہاں سے ہوتے ہوئے میں سیہون شہر سے پہلے لکی پہاڑیوں میں لکی کے گندرفی چشموں پر گیا تھا۔ جلد کی بیماری کی صورت میں مرد، عورتیں اور بچے وہاں دور دور سے آتے ہیں۔ وہاں اگر آپ جائیں تو آپ کو دیویوں کے درختوں پر یا جھاڑیوں پر رنگین دھاگے بندھے ہوئے ملیں گے۔ یہ عمل اور کوششیں مجبوری اور بے بسی میں ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہیں کیونکہ انسان اپنی زندگی میں محرومیوں کی ایک کائنات لیے ہوئے ہے۔ زندگی اتنی خوبصورت ہے نہیں جتنی ہمیں 70 انچ کی ایل ای ڈی ٹیلی ویژن اسکرین پر نظر آتی ہے۔ زندگی انتہائی مشکل ہے۔ اگر اس ذہنی دباؤ سے چھٹکارا حاصل نہ کیا جائے تو انسان پاگل ہوجائیں۔
اینیمیزمہم گزشتہ قسط میں جس روحانیت (animistic) اور عقائد کی بات کر رہے تھے، وہ ہزاروں برسوں سے ہمارے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں سفر کر رہے ہیں۔ یہ رنگین کپڑوں کے ٹکڑے اور دھاگے اُس اعتقاد کے ہیں جن کی جڑیں ہم ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بھروسے کو آپ عام کیفیت میں بالکل بھی نہ لیں، یہ ارتقائی انسان کے سرشت میں بستا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سر جیمز جارج فریزر ’شاخ زریں‘ جیسی کتاب کبھی تحریر نہیں کرتا اور ہم بھی اپنے اطراف میں پھیلے ہوئے تاریخی قبرستانوں کی قدامت جاننے کے لیے تگ و دو میں مصروف نہیں ہوتے۔
ہمارے پاس ہمارے ابتدائی پُرکھوں کے سماجی و سیاسی عوامل کے متعلق معلومات بہت ہی کم ہے مگر جتنی بھی ہے وہ بہت اہم ہے۔ جیسے 1955ء میں ماسکو سے 200 کلومیٹر مشرق سنگیر (Sunghir) نامی جگہ پر عمرانیات کے ماہروں نے ایک 34 ہزار برس قدیم یعنی (Upper Paleolithic) زمانے کا قبرستان کھوجا جو عظیم الحبثہ جانوروں کے شکاریوں کا معاشرہ تھا. ان کو کھدائی کے دوران ایک قبر میں 50 سالہ آدمی کا ڈھانچہ ملا جسے ہاتھیوں کے دانتوں سے بنائے گئے موتیوں سے ڈھانپا گیا تھا۔ سب ملا کر کوئی 30 ہزار موتی تھے، اس مردہ آدمی کہ سر پر ٹوپی تھی جسے لومڑی کے دانتوں سے مزین کیا گیا تھا اور اس کی کلائی کی جگہ پر 25 ہاتھی کے دانت کے کنگن تھے۔
سنگیر سے ملا ڈھانچہ جو ہاتھی دانت کے موتیوں میں لپٹا ہوا ہےمحققین کے مطابق، سنگیر میں ہاتھی نما جانوروں کے شکاری ایک طبقاتی معاشرے........
© Dawn News TV
