پاک بھارت کشیدگی، کیا سعودی عرب اہم کردار ادا کرسکتا ہے؟
یہ واضح نہیں کہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر کے تنازع کو ایک ہزار سال پرانا تنازع قرار دے رہے تھے تو وہ یہ بات یونہی کہہ گئے یا وہ واقعی تاریخ میں الجھ گئے تھے لیکن ایئر فورس ون جہاز میں دیے گئے اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پُراعتماد انداز میں یہ تو واضح کردیا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ان کے ’قریب ہیں‘ اور دونوں ممالک آپس میں مسئلہ کشیر کا حل نکال لیں گے۔
وہ گزشتہ ہفتے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے علاقہ پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملے کے تناظر میں دو جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر کیے گئے سوال کا جواب دے رہے تھے جس میں 26 شہری قتل کیے گئے۔
پاکستان کو قتل و غارت گری کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بھارت نے نئی دہلی میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے کی تعداد کم کرنے سمیت دیگر کئی اقدامات لیے جن میں تمام عسکری مشیروں کی بےدخلی، پاکستانیوں کو جاری ویزا کی منسوخی اور سب سے اہم دونوں ممالک کے درمیان کئی تنازعات اور جنگوں کے بعد بھی برقرار رہنے والے سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل ہے۔
پاکستان نے بھارتی سخت اقدامات کی عکاسی کرتے ہوئے بھارتی سفارتی عملے کی تعداد میں کمی، ویزا کی منسوخی اور دلچسپ طور پر 1971ء کی جنگ کے بعد طے پائے جانے والے شملہ معاہدے جیسے دیگر دوطرفہ معاہدوں کی معطلی پر غور کرنے کا اشارہ دیا۔
نجی طور پر صحافیوں کو دیے گئے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان میں اسلام آباد میں موجود چند مغربی سفارت کاروں کے جائزے کی جھلک دکھائی دی۔ ان کے نزدیک پہلگام حملے کے بعد ایسے سفارتی اقدامات متوقع تھے جوکہ دونوں ممالک کی جانب سے لیے گئے لیکن اس دور کے بعد تناؤ میں کمی بھی واقع ہوگی۔ تاہم بھارت کا مزاج بالخصوص میڈیا کی روش تو کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔ میڈیا مشتعل اور قوم پرست رپورٹنگ کررہا ہے۔ حال ہی میں........
© Dawn News TV
