پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے (8)
یہ اشارہ تو دیا جا چکا ہے کہ میرے دوست اور ایم اے او کالج لاہور کو دوبارہ تعلیمی ادارہ بنانے والے طاہر یوسف بخاری کی شخصیت میں ایک چُپ چپیتا دبدبہ جبلی انسان دوستی کے ساتھ خوشگوار تناسب میں یکجا ہو گیا تھا۔ دبدبہ زیادہ زوردار لفظ ہے، مَیں ٹی وی کی زبان میں اسکرین پریزنس کہنا چاہتا ہوں۔ گویا ایک ایسی شخصیت جس کی رعب مِلی انسان دوستی شعوری کوشش کی محتاج نہ ہو۔ تو کیا شعوری کوشش کی کوئی ننھی منی ترغیب میرے سوا کسی اور نے بھی دی؟ اور اگر دی تو کیا سوچ کر؟ یہ ادھار رہا۔ ابھی تو درجنوں میں سے ایک مثال پیش ہے جب حکمت اور شفقت کے مابین توازن میں طبیعت کا پلڑا سبھی نے خوش دلی کے حق میں جھکا ہوا دیکھا۔ پر یہ تب کی بات ہے جب بخاری صاحب کے ریٹائر ہونے پر کچھ وقفے سے نفسیات کے معروف استاد، پروفیسر ظفر جمال باضابطہ پرنسپل مقرر ہو چکے تھے۔
پاک بھارت جنگ بندی، پوپ کا بیان بھی آگیا فی الوقت پیش ِ منظر میں ایم اے او کالج کے تدریسی سٹاف کا سالانہ ڈنر ہے۔ چونکہ نئے پرنسپل ظفر جمال کی میزبانی میں یہ اولین بڑی تقریب تھی، انہوں نے اپنے پیشرو سے بھی،جو قریبی دوست ہیں، شرکت کی درخواست کی۔ اِس شو کی نظامت اردو کے صدرِ شعبہ کر رہے تھے۔ جوشِ خطابت میں اسٹیج پر چڑھے تو ظفر جمال نام کے لغوی معانی کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا:”ہمارے نئے سربراہ کی ذات ِ بابرکات اسم با مسمی ہے کیونکہ آپ سر تا پا ظفر بھی ہیں اور جمال بھی۔ یکدم طاہر یوسف بخاری ڈنر ٹیبل سے اُٹھے اور زور سے کہا: ’ظفر جمال، اِن کی باتوں میں نہ آنا۔ اِنہوں نے میرے پرنسپل........
© Daily Pakistan (Urdu)
