پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے (7)
لاہور میں شادمان کا علاقہ دو حصوں میں منقسم ہے، جنہیں نفسیاتی امراض کا ہسپتال ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ ہمارے گھروں کے درمیان پنجابی ’ککڑ اُڈاری‘ کوئی ڈھائی سو گز تھی، لیکن زمینی مسافت ایک کلو میٹر سے کچھ اوپر۔ طاہر یوسف بخاری کی قربت کتنا بڑا نفسیاتی، سماجی اور مادی سہارا بنی، اِس کا ٹریلر دکھایا جا چکا ہے۔ یہی کہ کسی بھی تقریب میں جانا ہو، بخاری صاحب میری فرمائش پر ساتھ ہوں گے۔ باہر چائے پینے کا مُوڈ بن گیا تو بس ایک فون کال کی دُوری۔ گھر آئے غیر ملکی مہمان کو سنبھالنا دشوار لگا تو بخاری ذرا سے اشارے پر شریک میزبان۔ یہ خیال کبھی نہ آیا کہ اِس مہرباں مدرس نے وائس پرنسپل اور پھر پرنسپل کے طور پر کئی انتظامی فرائض سنبھال رکھے تھے۔ ہفتہ وار چھٹی آبائی گاؤں کی نذر ہو جاتی جہاں سائل دیدہ و نادیدہ مشکلات کے حل کے لئے یوسف شاہ کی راہ دیکھا کرتے۔
پی ایس ایل، کراچی کنگز نے لاہور قلندرز کو 4 وکٹوں سے شکست دے دیہماری صبح کی سیر اِس کے علاوہ ہے جسے وقت بچانے کی خاطر ریس کورس پارک کی بجائے گھر کے نواح تک محدود کر دیا تھا۔اِسی دوران ایک واقعہ ہوا جو بیک وقت منفرد تھا اور سیدھا سادہ بھی۔ سیدھا سادہ اس لئے کہ ہمارے شہر و قصبات میں ایسا کوئی نہ کوئی واقعہ ہر دوسرے تیسرے دن ہوتا ہی آیا ہے۔منفرد یوں کہ اُس روز یومِ آزادی کی چھٹی تھی اور مَیں بخاری کے ساتھ نہر کی سروس روڈ پر تھا۔ اچانک ایرانی قونصلیٹ کے قریب پولیس کی ایک گینڈا صفت گاڑی آ ٹکرائی۔ زخمی ہونے کے باوجود بخاری کا سر محفوظ رہا۔ میرے ساتھ کیا ہوا، کیسے ہوا‘ اور پولیس بھاگ جانے کی بجائے ہمیں اسپتا ل کیوں لے گئی؟ اس کے گواہ بخاری صاحب تھے۔ وگرنہ مَیں تو چوٹ لگتے ہی پون گھنٹے کے لئے ’قیں‘ ہو گیا تھا۔
ستاروں کی روشنی میں آپ........© Daily Pakistan (Urdu)
