menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

       پر یہ اعزاز کہ ہم ساتھ رہے    (6)

8 1
28.04.2025

گوجرانوالہ سے لاہور آ کر طاہر یوسف بخاری اور بیگم گلشن بخاری کی گورنمنٹ کالج میں تعیناتی کا دورانیہ آٹھ سال سے کچھ اوپر بنتا ہے۔ پھر اِس سے زیادہ مدت تک بخاری صاحب ایم اے او کالج سے وابستہ رہے اور پرنسپل کے عہدے پر پہنچے۔ دونوں کے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر الگ الگ تقرر کی تاریخیں سرکاری ریکارڈ ہی نہیں، میرے اپنے روزنامچوں میں بھی درج ہیں۔ پر اِس سے زیادہ دلچسپ سوال بخاری جیسے جماندرو راوین کی بحیثیت مدرس اپنی مادرِ علمی تک رسائی اور پھر برضا و رغبت مع اہلیہ وہاں سے پسپائی کا ہے۔ میرے پُراسرار اندازِ بیاں سے شاید یہ شائبہ ملے کہ دونوں خدانخواستہ گورنمنٹ کالج (یا جی سی یو) میں خوش نہیں تھے،اِس لیے شوہر نے ایم اے او کالج جانے میں عافیت جانی اور بیوی نے کالج آف ہوم اکنامکس کا راستہ پکڑا۔ بخاری اور اُن کی بیگم کے ضمن میں اِس سے بڑا جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ اب بتاتا ہوں کہ کیوں اور کیسے؟

ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا؟

پہلے اُس صبح کا منظر دیکھیے جب 1999ء کی تعطیلات ِ گرما کے دوران طاہر بخاری اور مَیں طے شدہ پروگرام کے تحت سربرا ِ ہ ادارہ ڈاکٹر خالد آفتاب کے دفتر میں ایک ساتھ داخل ہوئے۔ ادارہ ہے ملک بھر میں عمومی تعلیم کا وہ اولین کالج جسے ڈگری ایوا رڈنگ اسٹیٹس ملے دو سال ہو چکے ہیں مگر یونیورسٹی کا باضابطہ درجہ عطا ہونے میں ابھی کچھ تاخیر ہے۔ تدریس کے ابتدائی دنوں سے ایک گونہ باہمی بے تکلفی کے باوجود مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملنے اور (اِس کے جواب میں) ڈاکٹر صاحب کو مجھ سے مِلنے کے لیے وقت لینا پڑتا ہے، جو لے چکے ہیں۔ اُن دنوں ایک اضافی سہولت البتہ یہ تھی کہ برآمدے میں رفیق نامی ڈرائیور والہانہ استقبال کِیا کرتا جسے نیو ہاسٹل کے دنوں سے لڑکوں نے بریگیڈیر کے فرضی رینک پر فائز کر دیا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب کمرے کے اندر قدم رکھتے ہی محسوس ہو گیا کہ ڈاکٹر خالد نے کچھ وقت، اور چائے کے ساتھ محتاط تعداد میں بسکٹ، ہمارے لیے مختص کر رکھے........

© Daily Pakistan (Urdu)