28 مئی۔ دنیا دیکھتی ہے
ہمارا نیوکلیئر پروگرام ہمیشہ سے ہی دنیا میں زیر بحث رہا ہے۔ اس کی وجوہات پر بھی غور ہو سکتا ہے اور اِس سلسلے میں غور کرنا بھی چاہئے تاکہ فیوچر پلاننگ کا سپیڈ ورک ہو سکے۔ ہندوستان کے پیٹ میں مروڑ کی سمجھ تو لگتی ہے تاہم دیگر مغربی ممالک کو کیا تکلیف ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔ ویسے تو فخر کی بات ہے کہ لوگ ہمارے متذکرہ بالا پروگرام سے خوف کھاتے ہیں۔ خوف یقینا اسی سے محسوس کیا جاتا ہے، جس کے کچھ پلے ہو اور اللہ کا لاکھ لاکھ دفعہ شکر ہے کہ ہمارا پلڑا ابھی تک بھاری ہے اور ہاں ہم نے گذشتہ جنگ میں بھارت کا پاؤں بھاری کردیا ہے اور اس بھاری بھر کم جثے میں وہ جتنا ہمارے خلاف زہر اگل سکتا ہے اُگل رہا ہے۔ اب ہم کو اس کی مستقل زبان بندی کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس لحاظ سے ہمارا ماضی بہت اچھا ہے۔ ہم نے ہندو جارحیت کا 1948ء میں منہ توڑ جواب دیا اور کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروایا باقی بھی ہم سے کچھ دور نہ تھا افسوس ہم اقوام متحدہ کی طفل تسلیوں کے بھینٹ چڑھ گئے۔ بعد ازاں 1965ء اور انڈو پاک وار۔ میدان میں جنگ جیتی اور ہندوستان کی اس وقت کی متکبر قیادت کو ہم نے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ مجبور آدمی کا کیا ہے، لیکن مجبور اگر گھٹیا اور بدفطرت ہو تو پھر 1971ء میں پاکستان دو لخت ہو جاتا ہے۔ ہندوستان پر تف اور اپنے جنہوں نے منفی کردار ادا کیاان پر لخ دی لعنت اور یقینا ہندوستان پر لعنت بیشمار۔ ہم محض گفتار کے غازی نہیں ہیں اور کچھ نہ کچھ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے ہم نے کمر کس لی اور نتائج کو نیلی چھت والے کے حوالے کر کے ایٹمی پلانٹ کی بنیاد رکھ دی۔ پھر تو انڈیا اور اس کے........
© Daily Pakistan (Urdu)
