ضمیر کہاں ہے؟
” میں تو ہرگز تیری بات نہیں مانوں گا“، ”جاﺅ جاﺅ جو کرنا ہے کر لوجو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو“، ”اگر ایسا ہے تو پھر ایسے ہی سہی“، پھر گالم گلوچ، ہاتھا پائی اور بالآخر ”گولیاں“ چل پڑیں۔ ایک قتل ہوا، دو تین بندے شدید زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ دراصل ایک دیہات میں پیش آیا۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ حقیقی کزنوں کے درمیان وراثتی چند مرلے زمین کی تقسیم پر اختلافات پیدا ہوئے، جو کہ گفت و شنید کے ذریعے باآسانی حل ہو سکتے تھے، لیکن ”ذہنی غنودگی“ و ”اپاہج پن“ کی وجہ سے کوئی ایک فریق بھی بات سننے کو تیار نہ تھا، صبر و تحمل، حسن ظن اور عقل و شعور کا استعمال دانستہ طور پر ترک کر دیا گیا۔ ”ماڑے نصیب“ ، ذہنی نگار خانہ یا تربیت کا ظلم و ستم کہہ لیں، تھوڑا سا مالی نقصان، چند منحوس ساعتوں میں ناقابل تلافی اور نا قابل یقین نقصان میں تبدیل ہو گیا۔ نتیجے کے طور پر ”عداوت و دشمنی“ کا نہ رکنے والا بھیانک سلسلہ شروع ہوا، جس نے پھر سارے خاندان کو اپنی ”تابکاری“ کی لپیٹ میں لے لیا۔ تعلیم، امن و سکون حتی کہ عزتیں تک رل گئیں، اگر کوئی پوچھے تو کہ ”کیا ہاتھ آیا“۔ یہ واقعہ ذہن میں رکھتے ہوئے تھوڑا سا تذکرہ چند........
© Daily Pakistan (Urdu)
