menu_open Columnists
We use cookies to provide some features and experiences in QOSHE

More information  .  Close

  مائیں بیٹوں کے فقط لاشے اُٹھا سکتی ہیں 

13 0
27.05.2025

آج اپنے ایک جواں سال شاگرد ڈاکٹر کے قتل کا سن کر مجھے اپنے سکول ٹیچر عبدالمجید یاد آ گئے۔ اس زمانے میں نصرت الاسلام سکول ملتان کا ایک طالب علم جو اُن کا شاگرد بھی تھا کسی نے معمولی تکرار کے بعد قتل کر دیا۔ مقتول دسویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ہم بھی دسویں جماعت میں تھے۔ اگلے دن استاد جی کلاس میں آئے تو بہت افسردہ تھے،انہوں نے بہت سی باتیں کیں، ایک بات مجھے یاد رہ گئی، انہوں نے کہا قتل کرنے والے کو قتل سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہئے،وہ مقتول سے زندگی کے جتنے سال چھین رہا ہے وہ قاتل کے حصے میں نہیں آئیں گے،مقتول کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے البتہ قاتل کی زندگی اور آخرت کا ایک ایک دن اُس کے لئے عذاب بن جائے گا۔ آج کل ہمارے اردگرد یہ کیا ہو رہا ہے،انسانی جان کی اس قدر بے توقیری تو پہلے کبھی نہیں تھی،یہ کس قسم کا شیطانی غصہ ہمارے سماج میں بھر چکا ہے کہ قتل سے کم پر انتقام کی آگ ٹھنڈی ہی نہیں ہوتی۔وہ مائیں جن کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا زندگی بھر کا دُکھ لے کر زندہ درگور قسم کی زندگی گذارتی ہیں ، ظالمو! اپنا نہیں سوچتے تو کم از کم اُن والدین کا ہی کچھ سوچ لو جو نجانے کن مصیبتوں اور مشکلات سے گذر کر اپنے بیٹوں کو کبھی ڈاکٹر کبھی افسر اور کبھی استاد بناتے ہیں، مگر ظالم درندے ایک گولی سے برسوں کی ریاضت پر پانی پھیر دیتے ہیں،اتنا غصہ آخر کہاں سے آ گیا ہے؟جان لینا تو سب سے قبیح فعل ہے۔ اسلام نے تو یہ بھی کہا ہے جس نے ایک انسان کی جان لی،گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا، ابھی چند دن پہلے حیدر آباد کی ایک وڈیو نے کئی دن تک اعصاب کو شل کئے رکھے،ایک دکان مالک جس نے مرغی فروش کو دکان کرائے پر دے رکھی ہے کرایہ مانگنے آتا ہے،جو........

© Daily Pakistan (Urdu)