پیشاوری کی عزیمت سے مُودی کی ہزیمت تک!
عبدالرحمٰن پیشاوری تو عقل وخرد سے ماوریٰ دیارِ عشق وجنوں کا باشندہ تھا۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں مال ودولتِ دُنیا اور رشتہ وپیوند کے بُتانِ وہم وگماں کو توڑ کر ملّت میں گُم ہوگیا۔ پشاور سے علی گڑھ اور علی گڑھ سے قسطنطنیہ تک، عشق کی ایک ہی جست نے سارا قصّہ تمام کردیا۔ بھرپور جوانی کے تیرہ برس ترک بھائیوں کی نذر کرنے کے بعد، قسطنطنیہ کی ایک گلی کو اپنے لہو سے سیراب کرتا ہوا، اُسی کی خاک اوڑھ کر ہمیشہ کی نیند سوگیا۔ شاید اُس کی ایک مجبوری بھی تھی۔ اُس کا کوئی وطن تھا نہ آزاد سرزمین جہاں وہ آزادی کے احساس سے سرشار، بھرپور سانس لے سکتا۔ سو اُس نے ہند کو خیرباد کہا اور بلقان کے معرکہ زاروں کو نکل آیا۔ میں پیشاوری کا آتشناک جذب وجنوں کہاں سے لاؤں؟ اور پیشاوری کے بَرعکس میرے پاس تو اپنا پاکستان بھی ہے۔ وہ پاکستان جس کے لئے میں عبدالرحمٰن ہی کی سرمستی کے ساتھ لڑ سکتا ہوں۔ مَرسکتا ہوں۔ اور اس کی خاکِ پاک اوڑھ کر سکون کی نیند سوسکتا ہوں۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا ؟پروگرام کے مطابق مجھے 7 مئی کو استنبول سے پاکستان روانہ ہونا تھا۔ ترک ائیر لائنز کی پرواز میں سیٹ بُک تھی کہ یکایک نریندر مودی بیچ میں آ ٹپکا۔ سارا پروگرام اُتھل پُتھل ہوگیا۔ پاکستان جانے والی پروازوں کے پَرکٹ گئے۔ اُدھر مُودی کسی احمقانہ خواب کی تعبیر تراشنے پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ میرا اضطراب بڑھنے لگا۔ بے کلی میں اضافہ ہونے لگا۔ راتیں بے خواب اور دِن بے چین رہنے لگے۔ اس سب کچھ کے درمیان میرے دل ودماغ میں اِس یقین کی شمع ضیا پاش رہی کہ اللہ کے فضل وکرم سے ہماری مسلح افواج کسی بھی مہم جُوئی کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
سرخ لکیر مٹ گئی، ایسے کام ہوئے جو پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے، چھوٹا سا واقعہ بھی پاک بھارت جنگ شروع کراسکتا ہے، ماہرین نے وارننگ دے دیایک شام یکایک گھنے بادل چھا گئے۔ پھر بارش........
© Daily Pakistan (Urdu)
