*کتنا طوطے کو پڑھایا*
ایک دوڑ سی لگی ہے کہ کون جیتے گا اور کس کو کیسے ہرایا جائے گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ راستہ طے ہے اور نہ اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔جس کا جب جی چاہے وہ جامد مقام سے ہی جیت کا اعلان کر سکتا ہے اور دریا پار کرنے والوں سے لہروں کے بھید بھاؤ کے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن سے دریا کا تعلق ہی نہیں۔ یہ علم کا سودا ہے۔جس میں صارف کی دلچسپی سے قطع نظر اسے وہ تھیلے بھرنے کو کہا جاتا ہے جو اسے ڈیپریشن تک لے جاتے ہیں۔ ہر سال علم کے یہ مصنوعی سمندر ذہنی و جانی کتنی قربانیاں لے رہے ہیں۔یہ اعداد و شمار خوف ناک ہیں۔جن اساتذہ کے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں کہ وہ جن طلبہ کو تعلیم دے رہے ہیں ان کا مینٹل لیول کیا ہے اور ان کے سوالات اور الجھن کا سرا کس طریق سے سلجھایا جا سکتا ہے۔تو دو طرفہ تکدر کی ابتدا ہوتی ہے۔جو نمبرز کی دوڑ میں سوال کرنے والے طلبہ پر بدترین رکاوٹیں لگاتی ہے. یہ مسائل پیش آتے رہیں گے کیونکہ ہم قابل اور تجربہ کار لوگ نکال کر نئی بھرتیاں کرتے رہیں گے اور یہ سلسلہ روایت کا روپ دھار لے گا۔ہم جس نسل کو پڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ان کی دماغی صلاحیتوں کے مطابق لیکچر تیار کرنا ہیں۔شاہین کو کرگس بنانے کے لیے انجکشن تیار نہیں کرنے۔لیکن بدقسمتی سے نئی نسل کی سوچ و فکر کو محدود کیا جا رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ابھی تک رپورٹ کارڈ بنانے کا طریقہ ہی وضع نہیں کیا۔ حد تو یہ........
© Daily Pakistan (Urdu)
