دم،غم،ہم اور ہم دم
خاتون کے پروقار چہرے پر ٹھہراؤ تھا، الفاظ میں جھرنوں جیسا بہاؤ تھا۔ سننے والے توجہ سے بات سن رہے تھے، حکمت کے موتی چن رہے تھے۔ ”کہنے والے کہتے ہیں،جب تک دم تب تک غم۔ صاحب علم یہ بھی فرما گئے ہیں، جب تک سانس تب تک آس۔ میرے خیال میں دونوں باتیں سچ ہیں۔جب تک دم ہے تب تک ہم غم سے نجات پاسکتے ہیں یا نہیں؟ غم لاحق ہو تو سچا ہم دم مل سکتا ہے یا نہیں؟یہ سوالات شاید پہلے انسان کے ذہن میں بھی پیدا ہوئے ہوں گے۔شاعر نے بجا کہا تھا کہ ہمارے اندر غم کی ندی کا پانی ہمہ وقت رواں رہتا ہے۔ حضرت آدم ؑ جنت میں جب تک اکیلے تھے، اداس رہتے تھے۔ غم کی تخلیق اولاد آدم کے وجود سے پہلے کی ہے“۔حضرت آدم ؑ تقاضہ بشریت سے مغلوب ہو کر شجرممنوعہ کے قریب چلے گئے۔ شاید اسی وجہ سے ہر دورکا انسان ممنوعات کی طرف راغب ہوتاہے، غم اٹھاتا ہے۔حضرت آدم ؑ بھی زمین پرخوشی سے نہیں آئے۔طویل عرصہ آہ وزاری کرتے رہے۔ شدید غمگین رہے۔ خالق کائنات نے خود پر رحم کرنا لازم کیا ہو ا ہے۔ ہمارے مالک کو اپنے غلام ہمارے جد امجد ”حضرت آدم ؑ“ پر رحم آیا۔ آدم کو دعا مانگنا سکھایا۔ حضرت آدم ؑ نے فرمایا ”اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہیں کرے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے“۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔ آدم ؑ کو نبوت عطا فرمائی،بھائی کا دشمن نکلا بھائی، قابیل نے ہابیل........
© Daily Pakistan (Urdu)
